Time 24 جولائی ، 2023
بلاگ

قرآن کی فریاد

قرآن پاک کی توہین کو کیسے روکا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو صرف مسلمانوں میں نہیں بلکہ اب غیر مسلموں میں بھی زیربحث ہے۔ سوئیڈن میں قرآن پاک کی توہین پر غیر مسلموں میں تشویش کا احساس ہمیں حال ہی میں برسلز کے دورے میں ہوا جہاں یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیداروں نے سوئیڈن میں قرآن پاک کی توہین کے واقعے کی مذمت کی اور ہمیں بتایا کہ انہیں سوئیڈن کے علاوہ ڈنمارک، ناروے، نیدر لینڈ اور کچھ دیگر یورپی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اظہار کے واقعات پر بہت پریشانی ہے اور وہ اس نفرت کو روکنے کےلئے کوئی موثر حکمت عملی وضع کرنا چاہتے ہیں۔

 یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس کےتوسط سے برسلز میں ہماری ملاقات یورپی کمیشن کے ایک ذیلی ادارے کی کوارڈی نیٹر میریون لالیسی سے ہوئی۔ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے انسداد کے لئے قائم ادارے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مارکیٹ پورے یورپ میں پھیل چکی ہے۔

 مسلمانوں کے خلاف کتاب اور فلم کے ذریعے پیسہ بھی کمایا جاسکتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگا کر یورپ میں الیکشن بھی جیتا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی، سوئیڈن، ہنگری اور فن لینڈ میں دائیں بازو کی کچھ مردہ سیاسی جماعتوں کے وجود کو اسلام مخالف نعروں نے نئی زندگی عطا کی ہے اور یہ جماعتیں دراصل مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر غیر مقامی افراد کا اپنے ممالک میں داخلہ بند کرنا چاہتی ہیں۔ یورپی کمیشن کے ڈائریکٹوریٹ جنرل فار امیگریشن اینڈ ہوم افیئرز کے سیکٹر فار سینٹرل اینڈ سائوتھ ایسٹ ایشیا کی سربراہ الیگزنڈرا ڈومانسکا نے بتایا کہ صرف پچھلے تین سال میں پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو یورپ میں ریذیڈینس پرمٹ دیئے جا چکے ہیں۔

 2020ء کے بعد سے یورپ میں پاکستانیوں کو جاری ہونے والے ریذیڈینس پرمٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور دائیں بازو کی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے آنے والے مسلمان ناصرف ان کے کلچر اور روایات کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ مقامی لوگوں کے روزگار کے لئے بھی خطرہ بن جاتے ہیں۔ کچھ جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ یورپی ممالک ایشیا اور افریقہ سے آنے والوں کا راستہ روکیں اور یوکرائن سے آنے والوں کے لئے راستے کھولیں کیونکہ وہ نیلی انکھوں والے سفید فام ہیں۔

برسلز میں ہمیں پتہ چلا کہ توہین قرآن اور توہین رسالت ﷺکے اکثر واقعات کا مقصد دائیں بازو کی جماعتوں کے لئے مقبولیت حاصل کرنا ہے۔ ان توہین آمیز واقعات کے خلاف مسلم ممالک میں تشدد آمیز مظاہروں کو مغربی ذرائع ابلاغ میں بہت اہمیت ملتی ہے اور پھر دائیں بازو کے نسل پرست سیاستدان اپنی نفرت انگیزی کی سیاست کو مزید چمکاتے ہیں۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ اٹلی، فن لینڈ او رسوئیڈن میں دائیں بازو کی جماعتیں حکومت کا حصہ بن چکی ہیں۔

 ان میں سے بعض جماعتیں یورپی یونین سے نکلنے کی حامی ہیں کیونکہ یورپی یونین ناصرف مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے بلکہ توہین قرآن کے واقعات کی کھل کر مذمت بھی کرتی ہے۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ فرانسس نے سوئیڈن میں توہین قرآن کی شدید مذمت کی ہے لہٰذا یورپی ممالک میں اس قسم کے واقعات کو مسلمانوں اور مسیحیوں کے مذہبی اختلافات کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ سوئیڈن کی موجودہ حکومت نسل پرست اور امیگریشن مخالف جماعت سوئیڈن ڈیموکریٹس کی مدد سے اقتدار میں آئی۔ سوئیڈن ڈیموکریٹس کے پاس 349 کے ایوان میں 72 نشستیں ہیں لیکن سوئیڈن کی وزارت خارجہ نے قرآن جلانے کے واقعے کی مذمت کی کیونکہ حکومت میں شامل دیگر جماعتیں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے پر یقین نہیں رکھتیں۔ قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کے واقعے میں ایک عراقی پناہ گزین سالوان مومیکا ملوث ہے جو 2018ء میں عراق سےسوئیڈن آیا۔ 

مومیکا کا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے لیکن وہ خود کو ایک ملحد کہتا ہے۔ اس نے سوئیڈن ڈیموکریٹس کے پلیٹ فارم کو بھی اپنی اسلام مخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا اور ایک مقامی عدالت کے اجازت نامے سے قرآن پاک کی توہین کی کیونکہ سوئیڈن کے قانون میں کسی مذہب کی توہین کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ کیا مومیکاکا نفرت سے بھرپور عمل دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا؟ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ مل کر صرف اسلام نہیں بلکہ تمام مذاہب کی توہین کو روکنے کے لئے عالمی سطح پر قانون سازی کی کوشش کرے۔ اس قانون سازی کے لئے اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے 12 جولائی کو ایک قرار داد منظور کرکے راستہ ہموار کردیا ہے۔ اس قرار داد میں توہین قرآن کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے مزید قانون سازی پر زور دیا گیا۔ قرار داد کے حق میں 28 اور مخالفت میں 12 ووٹ آئے جبکہ سات ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ قرار داد کی حمایت کرنے والوں میں پاکستان کے ساتھ تمام اسلامی ممالک کے علاوہ بھارت، چین، کیوبا اور ویت نام بھی شامل تھے۔ مخالفت کرنے والوں میں فرانس، جرمنی، برطانیہ، امریکا، بلجیم، فن لینڈ اور دیگر مغربی ممالک شامل تھے۔ ان مغربی ممالک کو توہین قرآن کے واقعات کی روک تھام کے لئے کیسے آمادہ کیا جائے؟

توہین قرآن اور توہین رسالتﷺ ہر مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ان واقعات کی مذمت کے لئے پرتشدد مظاہروں سے گریز کیا جائے۔ مسلمانوں کو اپنے عمل سے دنیا کو بتانا ہوگا کہ وہ اس قرآن کو مانتے ہیں جو امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔ ہمارے لیڈروں اور علماء کو عالمی فورمز پر بتانا ہوگا کہ قرآن کی توہین کا مطلب توریت، زبور اور انجیل کی توہین ہے کیونکہ قرآن میں ان آسمانی کتابوں کا بھی ذکر ہے اور مسلمان تمام آسمانی کتابوں کا احترام کرتے ہیں۔

 قرآن پاک کی سورہ الانعام میں فرمایا گیا ...’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو برا نہ کہو جنہیں یہ (کافر) لوگ اللّٰہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں، مبادا وہ بڑھ کر جہالت کے باعث اللّٰہ کو برا کہنے لگیں...‘‘ مسلمانوں کو اپنے اکثریتی ممالک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق حقوق العباد کا خیال رکھنا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

مسلمان قرآن کی تعلیمات کی طرف واپس آئیں تو پوری دنیا میں قرآن کی روشنی خود بخود پھیل جائے گی۔ ایک اور شاعر ماہر القادری نے کہا تھا ؎

کس بزم میں مجھ کو بار نہیں،کس عرس میں میری دھوم نہیں

ماہر القادری کی مشہور نظم ’’قرآن کی فریاد‘‘ کا یہ شعر مسلمانوں سے کہتا ہے کہ مجھ سے عقیدت کے خالی دعوے مت کرو، مجھے صرف آنکھوں سے نہ لگائو بلکہ مجھے اپنے دل میں بھی بساؤ، تم احترام کروتو باقی بھی کریں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔