فیکٹ چیک: پنجاب سنسر بورڈ نے باربی کو این او سی دیا جبکہ پنجاب حکومت نے فلم کی اسکریننگ روک دی

21 جولائی کو ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’لوگ باربی کا انتظار کر رہے ہیں اور پنجاب سنسر بورڈ نے اس فلم پر پابندی لگا دی ہے‘

پنجاب فلم سنسر بورڈ نے 20 جولائی کو صوبہ بھر میں باربی کو ریلیز کرنے کی منظوری دے دی تھی لیکن ایک دن بعد پنجاب حکومت نےاس فلم کی نمائش کو روک دیا۔

وائرل ہونے والی سوشل میڈیا پوسٹس میں دعوے کیے گئے ہیں کہ فلم باربی پر پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت پابندی عائد کر دی گئی ہے جب اس کے سنسر بورڈ نے فلم کو ”قابل اعتراض مواد“ پر کلیئرنس جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ تمام دعوے گمراہ کن ہیں۔

دعویٰ

21 جولائی کو ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’لوگ باربی کا انتظار کر رہے ہیں اور پنجاب سنسر بورڈ نے اس فلم پر پابندی لگا دی ہے‘۔

ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ پنجاب سنسر بورڈ نے فلم کا این او سی روک دیا ہے جب تک کہ فلم سے” قابل اعتراض“ مواد ہٹایا نہیں جاتا۔

اسی سے ملتے جلتے دعوے یہاں اور یہاں بھی شیئر کیے گئے۔

حقیقت

یہ تمام دعوے گمراہ کن ہیں۔

صوبے میں فلمز کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پنجاب فلم سنسر بورڈ نے باربی کو صوبہ بھر میں 21 جولائی کو ریلیز کرنے کی منظوری دے دی تھی تاہم ایک دن بعد ہی پنجاب حکومت نے مبینہ طور پر ”ایل جی بی ٹی کے حامی“ مواد پر مشتمل فلم کو سنیما گھروں میں نمائش کیلئے روک دیا۔

پنجاب فلم سنسر بورڈ (پی ایف سی بی) کے دو ممبران محمد حسیب اور ریحان شہزاد نے جیو فیکٹ چیک کو تصدیق کی کہ انہوں نے ہالی ووڈ پروڈکشن کو ”سنسر سرٹیفکیٹ “ جاری کر دیا تھا، اس لیے معمولی ترمیم کے بعد اسے چلانے کی منظوری دے دی گئی تھی۔

20 جولائی کو پنجاب فلم سنسر بورڈ کی طرف سے باربی کے لیے جاری کردہ سنسر سرٹیفکیٹ
20 جولائی کو پنجاب فلم سنسر بورڈ کی طرف سے باربی کے لیے جاری کردہ سنسر سرٹیفکیٹ

یہ فلم 21 جولائی کو پنجاب اور پاکستان بھر میں سینما گھروں کی زینت بنی۔

تاہم سنسر بورڈ کے اراکین کا کہنا ہے کہ 22 جولائی کو سیکرٹری وزارت اطلاعات و ثقافت نے پنجاب میں قانون کے تحت اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فلم کی دوبارہ اسکریننگ کیلئے اسے صوبہ بھر کے سنیما گھروں میں نمائش سے روک دیا ہے۔

پنجاب فلم سنسر بورڈ صوبے میں محکمہ اطلاعات و ثقافت سے منسلک ایک وِنگ ہے۔

پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ صوبائی حکومت کو فلم کے مواد پر کچھ تحفظات ہیں، ان کا دعویٰ تھا کہ اس فلم میں ”ہم جنس پرستی“ کو دکھایا گیا ہے۔

عامر میر نے ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”اس میں ہومو سیکشوئلیٹی [ہم جنس پرستی] کے کانٹینٹ [مواد]میں ایشو تھا۔آپ گوگل کر لیں، آپ کو پتہ چل جائے گا کچھ ہے یا نہیں تھا۔ “

نگراں وزیر اطلاعات و ثقافت نے مزید کہا کہ ”ابھی [فلم] ریویو میں جائے گی پھر ریلیز ہو گی، ہو سکتا ہے ایک دو دن میں ہو جائے، ڈائیلاگ وغیرہ ہیں ان کو سنسر کر کے پھر اس کو چلائیں گے۔ “

یہ بات اہم ہے کہ فلم باربی کو ملک کے باقی حصوں میں ریلیز کیا گیا ہے اور اسے سندھ اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نمائش کیلئے کلیئر کر دیا گیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ دوسرے صوبوں میں سنسر بورڈز نے مبینہ طور پر ”ایل جی بی ٹی کے حامی“ مواد پر کیوں کوئی اعتراض نہیں اٹھایا اور فلم کو ریلیز کرنے کی اجازت دی؟

نگران صوبائی وزیر نےجواب دیا کہ ”باقی صوبے پسند کرتے ہوں گے ایسی چیزیں ہمیں ذرا اعتراض ہے اس پر۔“

تاہم، پنجاب کے فلم سنسر بورڈ کے سیکرٹری ریحان شہزاد خان نے فلم میں اس قسم کے کسی بھی مواد موجود ہونے کی تردید کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ”ہاں،قابل اعتراض مواد تھا لیکن ہم جنس پرستی کا اظہار نہیں کیا گیا،قابل اعتراض مواد پی ایف سی بی نے نکال دیاتھا۔“

اضافی رپورٹنگ: نادیہ خالد

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔