فیکٹ چیک: آرمی (ترمیمی) بل کا اطلاق صرف حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران پر ہوگا

آرمی ایکٹ (ترمیمی) بل 2023ء میں شامل کی گئی ہر نئی ترمیم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ”اس کا اطلاق کسی بھی ایسے شخص پر ہوگا جو اس ایکٹ کے تابع ہے یا رہا ہے“

پاکستان کے ایوان بالا، سینیٹ نے پاکستان آرمی ایکٹ (ترمیمی) بل 2023ء منظور کر لیا ہے جس کا مقصد دیگر  تبدیلیوں کے علاوہ حساس معلومات کو شیئر کرنا، مسلح افواج کی تضحیک اور  ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

اس بل کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد سوشل میڈیا صارفین میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا یہ بل عام شہریوں پر لاگو ہوتا ہے یا صرف پاک فوج کے اہلکاروں پر؟

در حقیقت ، پاکستان آرمی (ترمیمی) بل2023ء، جس میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 ء میں ترمیم کرنے کی تجویز ہے، صرف حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں پر لاگو ہے۔

دعویٰ

ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ “آرمی ایکٹ ترمیمی بل شہریوں کے حقوق کا استحصال ہے، شہباز شریف جب شہری حقوق دینے کی بات کرتے ہیں تو بہت سمجھوتہ کرتے ہیں۔ ہر پاکستانی فوج پر تنقید کر سکتا ہے جب وہ کچھ غلط کر رہی ہو اور یہ اس کا حق ہے۔“

ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ”فوج کو بدنام کرنے یا اس کے خلاف نفرت پھیلانے پر 2 سال قید اور جرمانہ۔“

حقیقت

آرمی ایکٹ (ترمیمی) بل 2023ء میں شامل کی گئی ہر نئی ترمیم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ”اس کا اطلاق کسی بھی ایسے شخص پر ہوگا جو اس ایکٹ کے تابع ہے یا رہا ہے۔“

پاکستان آرمی ایکٹ1952 ء کے اصل قانون میں”ایکٹ کے تابع فرد“ کی تعریف درج ذیل ہے:

• پاکستانی فوج کے افسران، سپاہی اور دیگر

• وہ افراد جو پاکستان نیوی آرڈیننس 1961ء یا پاکستان ائیر فورس ایکٹ1953 ء کے تابع ہیں، جب انہیں پاکستان آرمی میں سروس کے لیے منظور کیا گیا تھا۔

• وہ افراد جو کیمپ میں جاری سروس، کسی مارچ پر یا پھر سرحد پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں،پاکستان آرمی کے کسی حصے میں ملازم ہیں یا ان کے ساتھ ہیں۔

پاکستان آرمی ایکٹ1952ء کے سیکشن 2(d) میں عام شہریوں کا ذکر ہے لیکن یہ کہتا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں ایکٹ کے تابع ہوں گے جب وہ مخصوص جرائم کا ارتکاب کریں۔

نئے بل میں مذکورہ بالا تعریفوں میں کوئی ردوبدل یا تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

ایڈووکیٹ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بھی جیو فیکٹ چیک کو تصدیق کی کہ حالیہ ترامیم نے مسلح افواج اور اس سے وابستہ افراد کے لیے قانون کو مزید سخت کردیا ہے۔

انہوں نےٹیلی فون پر واضح کیا کہ ”یہ نئی ترامیم عام شہریوں پر زیادہ لاگو نہیں ہوتیں، یہ بنیادی طور پر حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کے لیے ہیں۔مثال کے طور پر پہلے ریٹائرمنٹ کے 6 ماہ بعد کوئی آرمی آفیسر آرمی ایکٹ کے تحت نہیں آتا تھا، اب یہ تبدیلیاں کی گئی ہیں کہ جو بھی ایکٹ کے تابع ہے، اس کے خلاف اب 20 سال بعد بھی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔“

یہ ترامیم کیا ہیں؟

ترمیمی بل 2023ء میں سب سے قابل ذکر ترمیم یہ بتاتی ہے کہ اگر ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص سرکاری حیثیت میں ایسی معلومات کا انکشاف کرتا ہے، جو پاکستان یا مسلح افواج کی سلامتی یا مفاد کےخلاف ہو، تو اسے 5 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ایکٹ کے تحت کوئی بھی شخص ریٹائرمنٹ یا استعفیٰ وغیرہ کی تاریخ سے 2 سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ اور اگر وہ مسلح افسر حساس ڈیوٹی پر تعینات رہا ہےتو وہ سروس چھوڑنے یا ریٹائرمنٹ کے بعد 5 سال تک سیاست سے دور رہے گا۔

اس کے علاوہ، ایکٹ کے تابع کوئی شخص الیکٹرانک میڈیا یا کسی اور طرح سے مسلح افواج کو کمزور یا تضحیک نہیں کر سکتا۔ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر 2سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اپ ڈیٹ: اس نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے کے بعد 31 جولائی کو ایڈووکیٹ کرنل (ر) انعام الرحیم کا تبصرہ اس میں شامل کیا گیا ہے۔

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔