10 اگست ، 2023
صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی توڑ دی جس کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ اور حکومت تحلیل ہوگئی اور اب نگران حکومت کے قیام کا عمل شروع ہوگا۔
وزیراعظم نے 12 اگست کو مدت پوری ہونے سے 3 دن قبل قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری دستخط کرکے صدر کو منظوری کیلئے بھیجی تھی۔ ایوان صدر کے مطابق صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی توڑ دی، انہوں نے اسمبلی آئین کے آرٹیکل 58 (1)کے تحت تحلیل کی۔
صدر مملکت نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر لاہور میں دستخط کیے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد اتحادی وفاق حکومت ختم اور وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی البتہ وزیر اعظم شہباز شریف نگران وزیر اعظم کی تقرری تک کام جاری رکھیں گے۔
آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نگران وزیراعظم کے لیے مشاورت کریں گے اور نگران وزیراعظم کا نام فائنل کرنے کیلئے 3 دن کا وقت ہوگا، آئین کے آرٹیکل224 اے کے تحت نگران وزیراعظم کا تقرر ہوگا۔
تین دن میں نام فائنل نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا اور وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنے اپنے نام اسپیکر کی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے۔
پارلیمانی کمیٹی تین دن کے اندر نگران وزیراعظم کے نام کو فائنل کرے گی،پارلیمانی کمیٹی کے نگران وزیراعظم کا نام فائنل نہ کرنے پر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا،الیکشن کمیشن دیے گئے ناموں میں سے دو دن کے اندر نگران وزیراعظم کا اعلان کرے گا۔
پاکستان میں اب تک نگران وزیراعظم کے عہدے پر کون کون فائز رہا؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 1977 کے انتخابات کے بعد پہلی بار عام انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا مطالبہ کیا گیا۔
محمد خان جونیجو کی حکومت کے خاتمے کے بعد 1988 میں پہلی بار صوبوں میں گورنرز کے ماتحت نگران حکومتیں بنائی گئیں لیکن اس وقت نگران وزیر اعظم کا تقرر نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ میں 1990سے اب تک 7 نگران حکومتیں تشکیل پاچکی ہیں۔ایسے نگران وزیر اعظم بھی پاکستان آئے جن کا شناختی کارڈ انہیں ائیرپورٹ پر دیا گیا ۔ایک نگران حکومت کو توڑی گئی اسمبلی کی سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد گھر جانا پڑا۔
غلام مصطفیٰ جتوئی
1990 میں غلام مصطفیٰ جتوئی پاکستان کی تاریخ کے پہلے نگران وزیر اعظم مقرر ہوئے۔
غلام مصطفیٰ جتوئی 6 اگست 1990کو صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد تین ماہ کے لیے نگران وزیراعظم مقرر کیے گئے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی کے عہدے کی مدت 6 اگست 1990 سے شروع ہو کر 6 نومبر 1990 کو ختم ہوئی۔
ان کی حکومت نے نومبر 1990 میں عام انتخابات کرائے لیکن وہ نواب شاہ میں اپنے ہی حلقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے۔
بلخ شیر مزاری
آئینی طور پر نگران وزیراعظم کی مدت 3 ماہ یا 90 دن ہوتی ہے لیکن بلخ شیر مزاری ایسے واحد نگران وزیراعظم ہیں جنہوں نے صرف 39 دن تک بطور نگران وزیراعظم اپنے فرائض انجام دیے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بحال ہونے کے بعد نگران حکومت کالعدم ہوگئی تھی۔
بلخ شیرمزاری 18 اپریل 1993 سے 26 مئی 1993 تک نگران وزیراعظم رہے۔
معین قریشی
معین قریشی 18 جولائی 1993 کو نگران وزیر اعظم بنے اور 19 اکتوبر 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ معین قریشی نے نواز شریف کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد نگران وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری نبھائی۔
امریکا سے پاکستان آمد کے موقع پر ان کو ائیرپورٹ پر شناختی کارڈ فراہم کیا گیا جس پر ان کا پتہ وزیر اعظم ہاؤس درج تھا۔
ملک معراج خالد
ملک معراج خالد نے 6 نومبر 1996 سے 17 فروری 1997 تک بطور نگران وزیراعظم اپنے فرائض انجام دیے۔وہ سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کی جانب سے بےنظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کیے جانے پر نگران مقرر ہوئے تھے۔
محمد میاں سومرو
محمد میاں سومرو 16 نومبر 2007 سے 24 مارچ 2008 تک نگران وزیراعظم رہے۔انہوں نے 4 ماہ اور 8 دن تک ملکی اقتدار کی نگرانی کی۔
میر ہزار خان کھوسو
میر ہزار خان کھوسو کا بطور نگران وزیراعظم تقرر 25 مارچ 2013 کو عمل میں آیا اور 5 جون 2013 کو وہ اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے۔
چیف جسٹس ناصر الملک
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ناصر الملک نے نگران وزیراعظم کے طور پر یکم جون 2018 سے 18 اگست 2018 تک ملک کا انتظام سنبھالا اور اس دوران ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا۔
واضح رہے کہ حکومت کی مدت پورے ہونے یا اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتظام حکومت سنبھالنے کے لیے نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت اسمبلی کی معیاد پوری ہونے یا اسے تحلیل کیے جانے کی صورت میں دو سے تین ماہ کی مدت کے لیے صدر کی جانب سے نگران حکومت قائم کی جاتی ہے۔
نگران حکومت اپنی نگرانی میں نئے انتخابات کرانے کی ذمے دار اور نئی حکومت کی تشکیل تک ملکی امور چلانے کی مجاز ہوتی ہے۔