ایک فیس بک صارف نے ویڈیو پوسٹ کی جس میں رحیم یار خان کے وائلڈ لائف پارک کے ایک کمرے میں لنگور، مور، ہرن اور کچھ پرندوں کی لاشیں دکھائی گئی ہیں
17 اگست ، 2023
پنجاب وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ کےچار اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ مردہ جانوروں کو مناسب طور پر ٹھکانےلگائے بغیر کئی برسوں سے پارک کے ایک کمرے میں رکھا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کئے جانے والے دعوؤں کے مطابق پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں ایک سرکاری وائلڈ لائف پارک میں جانوروں اور پرندوں کی لاشوں کو گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے اور باقیات کو ٹھکانے لگانے یا دفنانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں کیا گیا ۔
یہ دعویٰ بالکل درست ہے۔
خبردار: مندرجہ ذیل ویڈیو میں دکھایا جانے والا مواد کچھ قارئین کے لئے پریشان کن ہو سکتا ہے۔
7 اگست کو ایک فیس بک صارف نے ویڈیو پوسٹ کی جس میں رحیم یار خان کے وائلڈ لائف پارک کے ایک کمرے میں لنگور، مور، ہرن اور کچھ پرندوں کی لاشیں دکھائی گئی ہیں۔
ویڈیو میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ”اس کا کوئی سسٹم نہیں ہے کہ اسے باہر پھینک دیں یا دفنا دیں۔ “
تقریباً دو منٹ کی اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے خوراک اور پانی کے بغیر جانور اور پرندے قابل رحم حالات میں پنجروں میں قید ہیں۔
اس پوسٹ کو تقریباً 4 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا اور 700 سے زائد بار لائک کیا گیا۔
اسی طرح کے دعوے دوسرے فیس بک صارفین کی طرف سے بھی یہاں، یہاں ، یہاں اورایکس [ جو پہلے ٹوئٹر کہلاتا تھا] پر بھی شیئر کیے گئے ہیں۔
جیو فیکٹ چیک نے رحیم یار خان کے وائلڈ لائف پارک کے تین اہلکاروں اور لاہور میں ڈائریکٹر جنرل وائلڈ لائف اینڈ پارکس سے بات کی۔ چاروں نےاس بات کی تصدیق کی کہ مردہ جانوروں کو مناسب طور پر ٹھکانے لگائے بغیر کئی برسوں سے پارک کے ایک کمرے میں رکھا گیا تھا۔
جیو فیکٹ چیک نے وائرل ویڈیو میں دیکھے جانے والے مردہ جانوروں میں سے دو کی پوسٹ مارٹم رپورٹس بھی حاصل کیں۔
دستاویزات کے مطابق اپریل 2021ء میں جب ہرن کی موت واقع ہوئی تو اس کی عمر صرف 25 دن تھی، اس کی لاش پچھلے دو برس سے پارک کے ایک کمرے میں پڑی ہے۔
لنگور کی موت دسمبر 2022ء میں ہوئی تھی، جس کے بعد اس کی لاش کو پارک کے دوسرے کمرے میں پھینک دیا گیا تھا، جہاں یہ ابھی تک موجود ہے۔
دونوں پوسٹ مارٹم رپورٹس میں وائلڈ لائف حکام کو مناسب ایس او پیز کے مطابق لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔
پنجاب میں محکمہ وائلڈ لائف اینڈ پارکس کے ڈائریکٹر جنرل مبین الٰہی نے جانوروں کی موت کے فوراً بعد ان کو مناسب طور پر ٹھکانے نہ لگانے پر پارک انتظامیہ کی غفلت کا اعتراف کیا ہے۔
مبین الٰہی نے ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ ”اب ان [سٹاف] کی غلطی ہے کہ آفٹر پوسٹ مارٹم اس کو ڈسپوز کردینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے اس کو صیح طریقے سے ڈسپوز نہیں کیا۔ سائٹیفک پرپز کے لیے اس کی بونز [ہڈیاں] اور سکیلٹن [ڈھانچہ] اس میں سے ریٹریو [حاصل] کرنا تھا، اس وجہ سے اس کو ڈی کمپوز ہونے کے لیے زو کے اس حصے میں رکھا گیا جسے ہم مورگ [مردہ خانہ] کہتے ہیں۔ “
جب ان سے پوچھا گیا کہ کچرے سے بھرے ان کمروں کو ”مردہ خانہ“ کا درجہ کیسے دیا جا سکتا ہے تو مبین الٰہی نے اعتراف کیا کہ اس [مورگ] کو بہتر طریقے سے آپریشنل ہونا چاہئے تھا۔
مبین الٰہی کا کہنا تھا کہ ”آئی ایگری [ میں مانتا ہوں] کسی بھی سٹینڈرڈ کے مطابق وہ مورگ نہیں ہو سکتا، کیونکہ مورگ کے اندر ایک ٹمپریچر کنٹرول ہوتا ہے جس کے اندر آپ نے باڈی کو ریزرو [محفوظ] رکھنا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو یہ [باقیات] کوڑے کباڑ میں پڑی تھیں۔ “
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ چڑیا گھر کے لیے فی الحال جانوروں کی دیکھ بھال کا کوئی باقاعدہ تحریری نظام موجود نہیں ہے، جو پنجرے میں بند جانوروں کے انتظام اور دیکھ بھال کے لیے قواعد وضع کرے ۔
انہوں نے کہا کہ ”اس پراسس [زو مینوئل] کو سٹریم لائن کرنے کے لیے ہم ایس او پیز بھی فارمولیٹ کر رہے ہیں۔ “
جیو فیکٹ چیک نے رحیم یار خان میں وائلڈ لائف پارک کے ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور انچارج سے بھی رابطہ کیا۔
تینوں عہدیداروں نے مبین الٰہی کے اس دعوے کی تائید کی کہ جانوروں کی ان باقیات کو رحیم یار خان میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طلباء کے لئے ”مردہ خانہ“میں رکھا گیا تھا، تاکہ بعد میں ان کو ریسرچ کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا ہے۔
خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ زولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مجیدہ رشید نے ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ ”ڈیڈ باڈیز پر تو ہماری ریسرچ نہیں ہے۔یہ چیز [ایسا] اگر انہوں نےاپنے آپ کو بچانے کے لئے کہا ہے تو اچھی بات نہیں ہے۔“
ڈاکٹر مجیدہ رشید کا مزید کہنا تھا کہ ان کے طالب علموں نے ابھی تک ان مردہ جانوروں پر کوئی تحقیق نہیں کی ہے جنہیں ویڈیو میں دیکھایا گیا ہے۔
اضافی رپورٹنگ: فیاض حسین
ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔
اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے
رابطہ کریں۔