جیو فیکٹ چیک: نواز شریف کو پانامہ پیپرز کی وجہ سے نااہل نہیں کیا گیا

3 اگست کو بی بی سی ورلڈ نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نےیہ دعویٰ کیا کہ نواز شریف پانامہ پیپرز میں”پکڑے“ گئے ہیں

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 2013 کے انتخابات میں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں وصول نہ کی گئی تنخواہ کو ظاہر نہ کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے متعدد بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے لندن میں4 لگژری اپارٹمنٹس کی خریداری کی وضاحت نہ کرنے پر نااہل قرار دیا تھاجو 2016 ء میں پانامہ کی ایک قانونی فرم سے لیک ہونے والی دستاویزات کے بعد پاکستان میں زیرِ تفتیش آیا۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

3 اگست کو بی بی سی ورلڈ نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نےیہ دعویٰ کیا کہ نواز شریف پانامہ پیپرز میں”پکڑے“ گئے ہیں۔

انہوں نے پروگرام کے میزبان کو بتایاکہ ” نواز شریف کیسے پکڑے گئے؟ یہ پانامہ پیپرز کی وجہ سے تھا، یہ بے نقاب ہوا، جب پتہ چلا کہ ان کے لندن میں 4 لگژری فلیٹس ہیں جن کو انہوں نے ظاہر نہیں کیا تھا اور وہ ان کی بیٹی کے نام پر تھے“۔

عمران خان نے مزید کہا کہ نواز شریف کا کیس عدالت میں ڈیڑھ سال تک زیرِ سماعت رہا جس کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے نواز شریف سے یہ معلومات فراہم کرنے کو کہا کہ ان کے پاس اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا، ”جب وہ [معلومات فراہم نہیں کرسکے]، تب ہی انہیں نااہل قرار دیا گیا۔“

نیوز آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس انٹرویو کو 3لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی متعدد بار شیئربھی کیا جا چکا ہے۔

حقیقت

نواز شریف کو 2013 کے انتخابات میں اپنے کاغذات نامزدگی میں دبئی میں قائم ان کے بیٹے کی ملکیتی کمپنی Capital,FZE سے 10ہزار درہم کی وصول نہ کی گئی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

انہیں 4 اپارٹمنٹس کے سلسلے میں نااہل قرار نہیں دیا گیا تھا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق نواز شریف بطور بورڈ چیئرمین کمپنی سے تنخواہ لینے کے حقدار تھے، یہ ایک رسمی دفتر تھا جس پر وہ2007 سے فائز تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنی تنخواہ وصول نہیں کی۔

اس بنیاد پر جولائی 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو نواز شریف کو پارلیمنٹ سے نااہل قرار دینے کا حکم دیا، مزید یہ آرڈر جاری کیا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ ہو چکے ہیں۔

فیصلہ لکھنے والے جسٹس اعجاز افضل خان نے لکھا کہ نواز شریف 2013  میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے جمع کرائے گئے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں” Capital,FZE متحدہ عرب امارات سے وصول نہ کی گئی تنخواہ جس کے وہ حقدار تھے کو اثاثے کے طور پر ظاہر کرنے میں ناکام رہے“۔

فاضل جج نے مزید کہا کہ انتخابی قوانین کے مطابق” حلف نامہ کے تحت جھوٹ بیان کرنے پر نواز شریف کوعوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے سیکشن 99(f) اور آئین کے آرٹیکل 62(1)(f)کے لحاظ سے ایماندار نہیں ہیں لہٰذا انہیں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن بننےکے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔“

سپریم کورٹ کے فیصلے کا لنک: 

https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/Const.P._29_2016_28072016.pdf

نواز شریف اور ان کےخاندان کے خلاف مقدمہ تو پانامہ کی ایک فرم سے لیک ہونے والی دستاویزات کے بعد شروع کیا گیا تھا مگر سابق وزیر اعظم کو آخر کار دبئی میں قائم Capital,FZE ایک کمپنی جس کا پانامہ پیپرز میں کوئی تذکرہ نہیں ہے سے وصول نہ کی گئی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نا اہل قرار دے دیا گیا۔

کمپنی کا نام دراصل جسٹس اعجاز الاحسن کے ایک نوٹ میں اپریل 2017 میں دیا گیا تھا جب سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پانامہ پیپرز سے متعلق ایک کیس کی سماعت کر رہا تھا۔

جج نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ”Capital,FZE، دبئی  کے نام اور طرز کے تحت ایک اور کمپنی ہے جو ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات کے قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ فنڈز بھی وقتاً فوقتاً جواب دہندہ نمبر 7 (حسین نواز شریف) کی جانب سےمذکورہ کمپنی کے ذریعے بھیجے جاتے رہے ہیں“۔

اس کے علاوہ جیو فیکٹ چیک نے مزید تصدیق کے لیے وکیل صلاح الدین احمد سے بھی رابطہ کیا۔

صلاح الدین احمد کا بھی یہی کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جانے والا واحد بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے وصول نہ کی جانے والی تنخواہ کو ظاہر نہیں کیا۔

صلاح الدین احمد نے ٹیلی فون پر بتایا کہ ” انہیں اپنے بیٹے کی کمپنی سے ملنے والی غیر ادا شدہ تنخواہ ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا تھا کہ غیر ادا شدہ تنخواہ (قابل وصول ہونا) بھی ملازم کا اثاثہ ہے اور اس لیے انہیں اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ ECP [الیکشن کمیشن آف پاکستان] کے پاس جمع کرائے گئے اثاثوں کی فہرست میں اس کو ظاہر کرنا چاہیے تھا۔“

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔