05 ستمبر ، 2023
اسلام آباد:صدر عارف علوی رواں ہفتے کے آخر میں اپنی مدت پوری کر رہے ہیں لیکن آئین واضح طور پر انہیں اپنے جانشین کے انتخاب تک عہدے پر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے چاہے اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔
مختلف قانونی اور آئینی معاملات پر ماہرین کی رائے حالیہ عرصہ کے دوران مختلف رہی ہے جس سے سنگین تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔
موجودہ حالات میں صدر عارف کے اپنے عہدے کی معیاد سے آگے کام کرتے رہنے کا سوال ایک ایسا معاملہ ہے جو طے شدہ ہے اور آئین میں ایسی کوئی بات درج نہیں جس کی تشریح کرتے ہوئے صدر کو عہدے کی معیاد مکمل کرنے کے بعد عہدے سے ہٹانے پر مجبور کیا جا سکے۔
تاہم، اگر وہ اپنی مدت پوری ہونے پر از خود عہدہ چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں تو ایسی صورت میں آئین میں ان کے متبادل کیلئے واضح بات موجود ہے۔ اب تک صدر نے اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں گے یا کام کرتے رہیں گے۔
صدر علوی کی پانچ سالہ مدت ملازمت 9 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 44(1) کے مطابق، صدر عہدہ سنبھالنے کی تاریخ سے لیکر پانچ سال کی مدت کیلئے عہدے پر کام کرتے رہیں گے اور مدت ختم ہونے کے بعد جب تک ان کے جانشین کا انتخاب نہ ہو جائے اس وقت تک وہ اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔
صدر کے عہدے پر فائز شخص اس عہدے کیلئے دوبارہ انتخاب کا اہل ہوگا لیکن کوئی شخص اس عہدے پر مسلسل دو میعادوں سے زیادہ نہیں رہ سکتا۔
آئین کے مطابق صدر قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اپنے ہاتھ سے لکھا استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ اگر صدر کا عہدہ صدر کے انتقال، استعفیٰ یا برطرفی کی وجہ سے خالی ہو جاتا ہے، تو ایسی صورت میں چیئرمین یا، اگر چیئرمین بھی صدر کے عہدے کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہے تو، قومی اسمبلی کا اسپیکر صدر کے طور پر کام کرے گا تاوقت یہ کہ صدر کا انتخاب نہ ہو جائے۔
جب صدر ملک سے غیر حاضری یا کسی اور وجہ سے اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہو تو چیئرمین یا، اگر وہ بھی غیر حاضر ہو یا صدر کے عہدے کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہو تو قومی اسمبلی کا اسپیکر صدر کے فرائض اس وقت تک انجام دے گا جب تک کہ صدر وطن واپس نہیں آ جاتا یا دوبارہ کام شروع نہیں کر دیتا۔
اگر ڈاکٹر علوی 9 ستمبر کو عہدہ چھوڑ دیتے ہیں تو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اگلے عام انتخابات کے بعد نئے صدر کے انتخاب تک صدر کے طور پر کام کریں گے۔
صدر کے دفتر کا الیکٹورل کالج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (سینیٹ اور قومی اسمبلی) اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔ آئین صدر کی میعاد ختم ہونے کے دو ماہ کے اندر انتخاب کی اجازت دیتا ہے لیکن ایک نامکمل الیکٹورل کالج کی وجہ سے گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کیلئے نیا صدر لانا ممکن نہیں تھا۔ نہ صرف دو صوبائی اسمبلیاں پنجاب اور کے پی پہلے ہی تحلیل ہو چکی ہیں بلکہ پی ٹی آئی کے بیشتر ارکان قومی اسمبلی بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔
اگر اسمبلیاں تحلیل ہونے کی وجہ سے صدر کا انتخاب نہیں ہو سکتا تو یہ الیکشن عام انتخابات کے 30؍ دن کے اندر کرایا جائے گا۔ اس صورت حال میں نئے صدر کا انتخاب آئندہ انتخابات کے 30 دن کے اندر کیا جائے گا۔
صدر علوی معیاد کے خاتمے کے باوجود عہدے پر برقرار رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اپنے عہدے کے تمام اختیارات سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے جس میں عام معافی دینا، مہلت دینا اور کسی بھی عدالت، ٹریبونل یا دوسری کسی اتھارٹی کی طرف سے دی گئی سزا کو معاف، معطل یا کم کرنے کا اختیار شامل ہے۔