08 ستمبر ، 2023
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کے عدالتی بینچ پر اعتراضات مسترد کردیے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی خوش دامن، خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے، جسٹس مظاہر نقوی، عابد زبیری اور پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو لیکس پر حکومت نے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔
حکومت نے 9 مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں یہ انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس میں اسلام آباد اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شامل تھے تاہم عابد زبیری نے اس کمیشن کو چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ تشکیل تھا، اس بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
عدالتی بینچ نے اس کیس کی دو سماعتیں کیں اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔
تاہم سابقہ حکومت نے مفادات کے ٹکراؤ پر تین ججزکی بینچ سےعلیحدگی کے لیے متفرق درخواست دائرکی تھی، حکومت کی جانب سے بینچ میں شامل جن تین ججوں پر اعتراض اٹھایا گیا ان میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
عدالت نے حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراض کی درخواست پر سماعت کے بعد 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو تین ماہ بعد آج جمعہ کو جسٹس اعجاز الاحسن نے سنایا۔
سپریم کورٹ نے تین ججز پر حکومتی اعتراض کی متفرق درخواست خارج کردی اور عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سابقہ حکومت کے بینچ پر اعتراضات کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔
جسٹس اعجاز نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ججز پر اعتراض عدالت پر حملے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ کے آج سنائے گئے آڈیو لیکس تحریری فیصلے کے اہم نکات
عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن ازخود نوٹس کیس کے 9 رکنی بینچ کے 2 ججز نے 23 فروری کو اسپیکرز کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں، اُس روز کیس کے میرٹ پر دلائل سے پہلے 2 ججزنے اسپیکرز کی درخواستیں مسترد کر دیں۔
عدالت کے مطابق حکومتی اتحادیوں نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراضات کیے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اتحادی جماعتیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھول گئیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس بنیادی حقوق کے خلاف ورزی پر ازخود نوٹس کاروائی جاری رکھ سکتا ہے، فاقی حکومت کا بظاہرمقصد الیکشن ازخود نوٹس کاروائی کو التوا میں ڈالنا تھا۔
عدالت کے تحریری فیصلے کے مطابق 23 اور 24 فروری کی ان دو عدالتی کاروائیوں کے بعد 9 رکنی بینچ 27 فروری کو چیمبر میں اکٹھا ہوا،27 فروری کو عدالتی کارروائی پر سکون طریقے سے چلانے کے بارے میں مشاورت ہوئی، بالآخر 27 فروری کو فیصلہ ہوا کہ چیف جسٹس دوبارہ بینچ تشکیل دیں، مشاورت کی روشنی میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے 5 رکنی بینچ کی دوبارہ تشکیل پرکوئی اعتراض نہیں کیا، بعد ازاں یکم مارچ کو 5 رکنی بینچ نے تین دو کی اکثریت سے مختصر فیصلہ سنادیا،تین ججوں نے فیصلہ دیا کہ کے پی اور پنجاب اسمبلی اسپیکرز کی درخواستیں قابل سماعت ہیں، آئین کے تحت دونوں صوبائی اسمبلیوں میں 90 دن میں انتخابات کرانے کا اکثریتی فیصلہ دیا گیا۔
تاہم دو فاضل ججوں نے اسپیکرزکی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردیں،کثریتی فیصلے سے حکومت ناراض ہوگئی اور فیصلہ مسترد کردیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت نے کہنا شروع کردیا کہ درخواستین چار تین سے مسترد ہوگئیں ہیں، چارتین کے فیصلے کے بیانیہ پر یکم مارچ کے عدالتی حکم پر عملدر آمد سے انکار کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی۔