بلاگ
Time 19 ستمبر ، 2023

علاقائی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ

افغانستان کی سرزمین پرموجود دہشت گرد گروہ علاقائی سلامتی بالخصوص پاکستان کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ ان گروہوں میں دیگر کے علاوہ ٹی ٹی پی مسلسل پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف ہے۔

 اس صورتحال پر امریکہ نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک امریکی تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے افغان امورکے امریکی نمائندے تھامسن ویسٹ نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی علاقائی امن وسلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے درمیان مضبوط تعلقات ہیں۔

امریکی نمائندے تھامسن ویسٹ نے کہا کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی طرف سے اس حقیقت کا طویل عرصہ سے دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اور افغان عبوری حکومت مسلسل اس دعوے اور حقیقت کی تردید کررہی ہے جو کہ انتہائی حیران کن ہے۔ امریکی خصوصی ایلچی کایہ بیان پاکستان کے اس دعوے کی حقیقت کا برملا اعتراف ہے۔

 امریکی خصوصی ایلچی کا ٹی ٹی پی کے بارے میں یہ بیان افغان حکومت کے لئے آنکھیں کھولنے والا اور افسوسناک ہونا چاہئے۔ جو پاکستان کے دعوے کی مسلسل تردید کرتی رہی ہے۔ تھامس ویسٹ نے اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے پوری دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ہے کہ ٹی ٹی پی علاقائی امن واستحکام اور خاص طور پر پاکستان کے لئے بڑا خطرہ ہےجہاں ٹی ٹی پی کی مذموم سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں طالبان کی فتح اور حکومت بنانے سے ٹی ٹی پی کو نہ صرف حوصلہ ملا بلکہ اس کو مضبوطی بھی ملی۔ آج ٹی ٹی پی کے لئے افغانستان کے بعض علاقے مضبوط اور محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین سے آکر پاکستانی علاقوں میں دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔ سیکورٹی فورسز اور پاکستانی چوکیوں پر بزدلانہ حملے کرتے ہیں۔

یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان حملوں اور دہشت گردکارروائیوں میں بہت سے دہشت گرد پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہوجاتے ہیں اور بچے کچھے واپس افغانستان فرارہو جاتے ہیں۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی خود افغان عبوری حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس پرمٹی ڈال کر چھپانے کی کوشش کرنے کی بجائےافغان حکومت کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جو موجودہ افغان حکومت کے لئےبھی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔

اس طرح ٹی ٹی پی کےخلاف کارروائی سے افغان عبوری حکومت کی نیک نامی ہوگی اور افغانستان کی ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پہچان میں مدد کرے گی ۔ اور یہی سمجھنے اور قبول کرنے کا وقت ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں جو افغانستان میں موجود ہیں ان کے خلاف ٹھوس اور عملی کارروائی کی جائے۔

دوسری طرف اس طرح کے دہشت گروہوں کا دوبارہ سراٹھانا خود افغانستان کے لئے بھی بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ افغانستان میں امن واستحکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں خود افغان حکومت بھی اس صورتحال کو بے چینی سے دیکھ رہی ہے۔ افغان عبوری حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ مستقبل میں افغان حکومت اور افغانستان کے لئے بھی سنگین خطرے اور نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ 

افغان عبوری حکومت کو یہ بات بھی سمجھنی اور تسلیم کرنی چاہئے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر ملک اور پڑوسی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کی مدد کی ہے۔ لاکھوں افغان بہن بھائیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی مہمان نوازی کی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ لیکن پاکستان کے لئے یہ بڑی دکھ کی بات ہے کہ افغان حکومت نے اب تک ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی۔

افغان عبوری حکومت’’ دوحہ معاہدے‘‘ کے اپنے اس دعوے کو پورا کرنے میں ناکام ہورہی ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ دونوں ممالک کے ماحول اور ترقی کے مفادات کی طرح سیکورٹی مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک میں امن واستحکام دونوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ انکار کے بجائے افغان عبوری حکومت کو سرحدی ریاستوں کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی وغیرہ کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنے اور اس کو کمزور کرنے کے لئے تعاون کرنا چاہئے۔امید ہے طالبان حکومت اس پر غور کرے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔