فیکٹ چیک: عبوری وزیر اعظم کا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں غلط دعویٰ

اقوام متحدہ کی عوامی سطح پر دستیاب رپورٹس اور حکومت کا ڈیٹا وزیر اعظم کے دعویٰ سے متصادم ہے۔

پاکستان کے عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے مطا بق صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کےتقریباً 50 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

29 ستمبر کو بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ جبری گمشدگیوں (Enforced Disappearance)، جو اقوام متحدہ کی ایک ذیلی کمیٹی ہے،کے تحت بلوچستان میں ہونے والی جبری گمشدگیوں کی تعداد تقریباً 50 ہے۔

ان سے جب گمشدہ لوگوں کے بارے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”انفورسڈ ڈس اپئیرنس جو یو این کی ایک سب کمیٹی ہے اس کے تحت جو تعداد بلوچستان میں آرہی ہے وہ لگ بھگ 50 کے ہیں اور جو ہندوستان میں کشمیر کے حوالے سے ہے وہ 8 ہزار ہے۔“

وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ نے ایک طریقہ کار دیا ہوا ہے کہ کیسے آپ نے لوگوں کا ڈیٹا لینا ہے اور پھر اسٹیبلیش کرنا ہے کہ یہ جبری گمشدہ لوگ ہیں۔

ان کا مزیدکہنا تھا کہ”لہذا اس [جبری گمشدگیوں کی بڑی تعداد] کو پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔“

اس ویڈیو کو اب تک 17ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے جبکہ اس انٹرویو کو ملک کے تمام بڑے خبر رساں اداروں نے رپورٹ بھی کیا ہے۔

حقیقت

اقوام متحدہ کی عوامی سطح پر دستیاب رپورٹس اور حکومت کا اپنا ڈیٹا وزیر اعظم کے دعویٰ کو غلط قرار دیتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی، جس کا نگراں وزیر اعظم ذکر کر رہے ہیں اسے کمیٹی برائے جبری گمشدگی (CED) کہا جاتا ہے جو آزاد ماہرین کا ایک ادارہ ہے جو ملکوں کے ذریعے جبری گمشدگی کے خلاف تمام افراد کے تحفظ کے کنونشن پر عمل درآمد کی نگرانی کرتا ہے۔

2006 میں جنرل اسمبلی کے ذریعے منظور کیے گئے کنونشن کے مطابق جبری گمشدگی کی تعریف یہ ہے کہ ”ریاست کے اہلکاروں یا اجازت کے ساتھ کام کرنے والے افراد یا افراد کے گروہوں کے ذریعہ گرفتاری، حراست، اغوا یا آزادی سے محرومی کی کوئی اور قسم ریاست کی حمایت یا رضامندی سےجس کے بعد آزادی کی محرومی کو تسلیم کرنے سے انکار یا گمشدہ شخص کی قسمت یا ٹھکانے کو چھپانے سے، جو ایسے شخص کو قانون کے تحفظ سے باہر رکھتا ہے۔“

جیو فیکٹ چیک کو CED کی ویب سائٹ پر ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی جس میں کہا گیا ہو کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے صرف 50 متاثرین ہیں۔

اس کی ویب سائٹ پر تازہ ترین رپورٹ میں 13 مئی 2022ء اور 12 مئی 2023 ءکے درمیان کیسز کا جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے نے صرف اسی عرصے میں جبری گمشدگیوں کی1635شکایات حکومت پاکستان کو بھیجیں۔

اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن انفورسڈ یا ان ولنٹری گمشدگیوں (WGEID) کی ایک سابقہ رپورٹ جو 2016 میں پاکستان کے دورے کے بعد شائع ہوئی تھی، میں خاص طور پر بلوچستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبے کے ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اب بھی 14ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہیں لیکن صوبائی حکومت 100 سے کم افراد کی تعداد کو تسلیم کرتی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھائے گئے اعداد و شمار کے درمیان تضاد کی وجہ سے ایسے کیسز کی صحیح تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہے تاہم اسے ”جبری گمشدگیوں کے کیسوں کی تحقیقات کے لیے حکومتی تعاون اورسیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے حکومتی کوتاہی کی علامت کے طور پر تعبیر کیا جانا چاہیے۔ “

اس کےعلاوہ جیو فیکٹ چیک کے ساتھ شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے اپنے کمیشن آف انفورسڈ ڈس اپیئرنسز پر بلوچستان سے 31 اگست 2023  تک 2,708کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

کمیشن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آج تک ان میں سے 2257مقدمات نمٹا دیے ہیں، جن میں کچھ متاثرین کے گھر واپس آنے، دیگر کے حراستی مراکز یا جیلوں وغیرہ میں ہونے کی وجہ سے صوبے میں 451 مقدمات زیر التواء رہ گئے ہیں اور وزیراعظم کے مبینہ الزام کے مطابق 50 مقدمات نہیں۔

فیکٹ چیک: عبوری وزیر اعظم کا بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں غلط دعویٰ

سرکاری اعداد و شمار کے دعویٰ کے مطابق کمیشن نے 31 اگست تک پاکستان بھر میں لاپتہ افراد کے 9967کیسز ریکارڈ کیے ہیں جن میں سے 2253ابھی تک زیر التواءہیں۔

پاکستان کے جبری گمشدگیوں کےانکوائری کمیشن کے سیکرٹری فرید احمد خان نے فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی جبری گمشدگیوں کی تعریف ”کم و بیش “وہی ہے جو کمیشن میں استعمال ہو رہی ہے۔

فریدخان نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کی سہ ماہی رپورٹ کمیشن کو بھیجتا ہے۔ تاہم، وہ وزیر اعظم کے دعویٰ کو غلط کہنے سے ہچکچا رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ زیر التوامقدمات سٹیگنینٹ نہیں ہوتے۔ یہ آج کچھ ہیں،کل ہوسکتا ہےکہ اس میں 6کا اضافہ ہوجائے اور پھر چھ کم ہوجائیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے کمیشن کو رپورٹ کی گئی شکایات کی تعداد شیئر کرنے سے بھی انکار کردیا۔

اس کے علاوہ، کمیشن کے ایک حالیہ رکن نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ وزیراعظم کی بتائی تعداد درست نہیں لگتی اور بلوچستان میں اس وقت جبری گمشدگی کے زیر التواء مقدمات میں 451 والا ڈیٹا ٹھیک ہوگا۔

جیو فیکٹ چیک نے پھر سپریم کورٹ کے وکیل عمر اعجاز گیلانی سے بات کی، انہوں نے بھی وزیر اعظم کے دعویٰ کو رد کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں مقدمات کی تعداد 50 نہیں بلکہ سیکڑوں میں ہونی چاہیے۔

اضافی رپورٹنگ: محمد بنیامین اقبال

ہمیںGeoFactCheck @پر فالو کریں۔اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔