فیکٹ چیک: سوشل میڈیا پر کینسر کے علاج سے متعلق جھوٹے دعوے دوبارہ وائرل

اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے کہ وائرل پوسٹس میں تجویز کردہ مبینہ علاج سے کینسر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

ایکس، فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں گردش کرنے والی ایک طویل پوسٹ میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ روزمرہ خوراک سے چینی کو ختم کرکے، لیموں کا رس پینے اور روزانہ ایک چمچ ناریل کا تیل کھانے سے کسی بھی قسم کے کینسر سے نجات مل سکتی ہے۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

ایکس، جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر ایک پوسٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماسکو میں ایک آنکولوجسٹ کاماننا ہے کہ کینسر ایک مہلک بیماری نہیں ہے۔

11 جولائی کو اپ لوڈ کی گئی پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ ” لوگ اس [کینسر] سے صرف بے حسی کی وجہ سے ہی مر جاتے ہیں۔ “

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ روس میں ایک ڈاکٹر کے مطابق چینی نہ کھانے، ناشتے سے پہلے ایک گلاس گرم پانی میں لیموں کا جوس پینے اور روزانہ 3چمچ ناریل کا تیل کھانے سے کینسر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

اس پوسٹ کو اب تک 4 ہزار سے زائد مرتبہ ری پوسٹ اور 6 ہزار سے زائد بار لائک کیا گیا، جبکہ اسے6 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

اسی طرح کی ایک پوسٹ دوسرے سوشل میڈیا صارفین نے بھی یہاں اور  یہاں شیئر کی ۔

حقیقت

پاکستان کے 4 آنکالوجسٹس (کینسر کے ماہرین) نے تصدیق کی ہے کہ اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے کہ وائرل پوسٹس میں تجویز کردہ مبینہ علاج سے کینسر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

لاہور میں قائم شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سiنٹر کے میڈیکل آنکولوجسٹ ڈاکٹر ذیشان طارق نے میسجز کے ذریعے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ ”یہ صرف کسی کی طرف سے دیا گیا ایک بیان ہے۔ دنیا بھر کے تمام آنکولوجسٹس کی جانب سے پیش کردہ علاج کو ڈیٹا اور ریسرچ کی بنیاد پر تجویز کیا جاتا ہے، ہمیں شواہد یا اعداد و شمار کےبغیر واضح بیانات نہیں دینے چاہئیں۔ “

ڈاکٹر طارق نے مزید کہا کہ کینسر کی 200 سے زائد اقسام ہیں جن کے لیے بیماری کے مرحلے اور قسم کے لحاظ سے مختلف علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”اس طرح کی معلومات [دعویٰ] انتہائی گمراہ کن ہے اور کینسر سے لڑنے والے مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہے۔“

اس کے علاوہ، پشاور میں قائم خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر اور لیڈ کنسلٹنٹ آنکولوجی ڈاکٹر محمد طارق نے بھی سوشل میڈیا کے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔

ڈاکٹر محمد طارق نے جیو فیکٹ چیک کو میسجز کے ذریعے بتایا کہ ”اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ ایک بہت پرانا واٹس ایپ میسج ہے اور ہمارے اکثر مریض بھی وقتاً فوقتاً ایسے میسجز لاتے رہتے ہیں۔“

اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ میڈیکل آنکولوجی کے چیئرپرسن ڈاکٹر قاسم محمود بٹر نے ان دعوؤں کو ایک ”سازشی نظریہ“، جبکہ کراچی کے آغا خان یونیورسٹی اسپتال کی میڈیکل آنکالوجسٹ ڈاکٹر مہوش شہزادی نے ان دعوؤں کو ”جھوٹ“ قرار دیا ہے۔

اضافی رپورٹنگ: نادیہ خالد

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے

رابطہ کریں۔