الوداع لندن!

پیر، دو اکتوبر کی سہ پہر میں ہیتھرو کے ہوائی اڈّے سے باہر نکلا تو لندن اپنے روایتی موسم کی رومانوی قبا اوڑھے، دِل نواز سی خنکی میں لپٹا ہوا تھا۔ آسمان گہرے سرمئی بادلوں سے ڈھکا تھا۔ ہلکی بارش سے سُرخ اینٹوں، سفید کھڑکیوں والے دُھلے دھلائے گھروں کے اَنگ انگ سے لندن پھوٹ رہا تھا۔

اُسی دِن، سرِشام ایک ریستوران میں کافی کی میز پر میاں صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اِس ملاقات میں کوئی تیسرا نہیں تھا سو گھنٹہ بھر کی نشست میں بہت سے اِشکالات دور ہوگئے۔ بہت سی گرہیں کھل گئیں۔ ایک بات حتمی پن کے ساتھ سامنے آئی کہ منفی یا مثبت پہلوئوں کی زائچہ تراشی کا وقت تمام ہوا۔فیصلہ حتمی ہے کہ نوازشریف 21 اکتوبر کی شام پاکستان آ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ تمام متعلقہ معاملات کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا ہے۔ 21 اکتوبر کو اپنی آمد کے بارے میں میاں صاحب نے مجھ سے رازداری کا عہدلیتے ہوئے کوئی ایک مہینہ پہلے ہی بتادیا تھا لیکن میں نے اسے راز ہی رکھا۔

طے پایا کہ ہم صبح 8 بجے ملا کریں گے تاکہ 11 بجے تک یکسوئی سے بات چیت ہوسکے۔ منگل سے جمعہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 11 بجے کے بعد کی مصروفیات میں رُخصتی کا رنگ نمایاں تھا۔ میاں صاحب کے لئے مشوروں کی بھرمار تھی۔ جو بھی آتا پھولوں کا ایک بڑا سا گلدستہ اور پندونصائح کابڑا سا ٹوکرابھی ضرور ہمراہ لاتا۔ اُن کے پاس کوئی نصف درجن تقریروں کے مسودے بھی دھرے تھے۔

مہمانوں کی کثرت اور مشوروں کے ہجوم کے باوجود میاں صاحب کی بدَن بولی میں اُکتاہٹ یا بیزاری کی کوئی جھلک نہ تھی۔ جسٹس (ر) نوید احمد خواجہ، طیارہ اغوا کیس میں اُن کے وکیل تھے۔ ملاقات کو آئے تو میاں صاحب نے پرانی یادوں کی بیاض کھول لی۔ کہنے لگے __ ’’صدیقی صاحب! خواجہ صاحب ہائی جیکنگ کیس میں میرے وکیل تھے۔ ایک دن عدالت لگی تو خواجہ صاحب نے دلیل دی کہ میرے موکل کے بنیادی حقوق بری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ ایک جج نے پوچھا_ ’’کیسے ؟‘‘ خواجہ صاحب بڑی سنجیدگی سے بولے __ ’’مائی لارڈ ! میرے موکل نوازشریف کو ہتھکڑی لگا کر زنجیر جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئی۔ اگر خدانخواستہ جہاز گر جاتا تو میرا موکل کس طرح چھلانگ لگاتا؟‘‘ عدالت میں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ میری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا_ ’’وکیل ایہوجے نے تے فیر اللّٰہ ہی حافظ اے۔‘‘ (اگر وکیل ایسے ہی ہیں تو پھر اللّٰہ ہی حافظ ہے)

میرے ساتھ طویل ملاقاتوں میں ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ دِل گرفتہ سے ہوجاتے۔ ’’حالات کیسے سدھریں گے۔ میں تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہوا۔ تینوں دفعہ تلخ تجربوں سے گزرا۔ ہر بار تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی کوشش کی۔ اپنی طبیعت کے برعکس بہت سی باتیں مان لیں کہ نظام چلتا رہے اور ملک کی تعمیر وترقی کا سلسلہ نہ ٹوٹے لیکن ہر بار میں ہار گیا۔ اصل میں ہر بار پاکستان ہار گیا۔ اپنی ذات اور اپنے خاندان سے ہونے والی ناانصافی اور ظلم کا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیا ہے لیکن پروجیکٹ 2017 سے پاکستان اور کروڑوں عوام پر جوگزری اور گزر رہی ہے اِس کا حساب کون دے گا؟‘‘ گفتگو کے اِس بہائو میں میاں صاحب لمحہ بھر کو رُکے۔ پھر بولے __ ’’میں ایک اور بات بھی پہلی بار، صرف آپ سے کہنا چاہتا ہوں جو میرے اور آپ ہی کے درمیان رہنی چاہیے۔‘‘ میں نے کہا _’’ میاں صاحب ایسی لاتعداد باتیں پہلے بھی میرے دِل کی تجوری میں بند ہیں۔ اس لئے آپ بے دھڑک کہیں۔ ‘‘اس کے بعد میاں صاحب نے اوپن ہارٹ سرجری کی طرح اپنا دِل کھول کے میز پر پڑی طشتری میں رکھ دیا۔ کبھی کوئی موزوں وقت آنے تک یہ بات میرے اور میاں صاحب کے درمیان ہی رہے گی تاہم میں جانے کب تک میاں صاحب کے عمیق سینے میں بپا تلاطم کا ہیجان محسوس کرتا رہوں گا۔

جمعہ، دفتر میں الوداعی دن تھا۔وہ چار سال تک اُن کی مصروفیات کی لمحہ لمحہ کوریج کرنے والے صحافیوں سے ملے۔ بیرونی ممالک سے آئے وفود سے ملاقات کی۔ مقامی کارکنوں کی بڑی تعداد سے فرداً فرداً ملے۔ تصویریں بنوائیں۔سب کو اپنے گھر سے بن کر آنے والا کھانا کھلایا۔ کچھ آنکھیں ’وفورِ جذبۂِ بے اختیارِ شوق‘ سے بھیگ رہی تھیں۔ کچھ خوش تھے کہ بالآخر نوازشریف گھر جارہے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں افواہ سازی اور دروغ بافی کا بازار اب بھی گرم ہے لیکن اللّٰہ نے چاہا تو میاں صاحب کا پروگرام حتمی ہے۔ میرے علم کے مطابق وہ چین جا رہے ہیں نہ قطر۔ عمرہ کے لئے سعودی عرب جاتے ہوئے دوحا کے ہوائی اڈے پر، پرواز بدلنے کے لئے مختصر قیام ہوسکتا ہے۔ عمرہ کے بعد وہ کچھ دِن مدینہ منورہ میں گزاریں گے۔ وطن واپسی سے دو دِن قبل متحدہ عرب امارات آنے اور 21 اکتوبر کی شام لاہور کے علّامہ اقبال ائیر پورٹ پر اترنے کا پروگرام طے ہے۔ 21 اکتوبر ہی کو ایک اور چھوٹی سی پرواز کا پیوند بھی لگ سکتا ہے __ لیکن یہ تجسس برقرار رہنا چاہیے۔

جمعہ کی سہ پہر میاں صاحب دفتر سے گھر کیلئے نکلے تو کارکنوں کے ایک بڑے ہجوم نے انہیں الوداع کہا۔ سڑک کے اُس طرف کھڑی دو نوجوان لڑکیاں اور ایک لڑکا، پی۔ٹی۔آئی کا جھنڈا اُٹھائے، میگافون پر ’’چور چور، ڈاکو ڈاکو‘‘ کے آوازے کس رہے تھے۔ کارکنوں کے پرجوش نعروں ’’وزیراعظم نوازشریف‘‘ کی گونج میں میگافون کی سِسکیاں کسی کو سنائی نہ دیں۔

نوازشریف کی جلاوطنیوں کا دورانیہ، اُن کے اقتدار کے عہد سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ کل ملا کر کوئی سوا نو برس وزیراعظم رہے لیکن قیدوبند کے علاوہ کوئی گیارہ سال جلا وطن رہنا پڑا۔ پہلی بار وہ 10 دسمبر2000سے 25نومبر2007تک، تقریباً سات برس جبری طورپر ملک بدر رکھے گئے۔ اگست 2007میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسی پاکستانی شہری کو اپنے وطن آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اِس فرمان کا پروانہ تھامے میاں صاحب وطن آئے تو میں اُن کے ہمراہ تھا۔ اُنہیں لائونج سے باہر نہ نکلنے دیا گیا۔ کمانڈوز دھکے دیتے ہوئے ایک اور طیارے تک لے گئے جو اُنہیں ایک بار پھرجدہ کے کنگ عبدالعزیز ہوائی اڈے کے شاہی ٹرمینل (جدہ) پر لے گیا۔ اکتوبر2007میں محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آگئیں تو مشرف کی تمام تر کوششوں کے باوجود، سعودی عرب نے میاں صاحب کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی اور وہ 25 نومبر2007کو لاہور پہنچ گئے۔ شدید بیماری کی حالت میں حکومت اور عدلیہ نے انہیں 19 نومبر2019کو لندن جانے کی اجازت دے دی۔ صحت کے گونا گوں مسائل اور پاکستان کے نوازدشمن، انصاف کُش ماحول نے اس جلاوطنی کو چار سال تک پھیلا دیا۔

نوازشریف آہنی اعصاب کا مالک ہے لیکن بہرطور گوشت پوست کا ایک انسان ہے۔

غالب نے کہا تھا

کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

وہ دکھوں اور غموں کی کتھا کم کم ہی سناتے ہیں ۔ ایک دن دفتر کے چھوٹے سے ذیلی کمرے میں بیٹھے وہ دیر تک ماضی کی راکھ کریدتے رہے۔ یہاں تک کہ میں اُن کے چہرے پر لندن کے سرمگیں بادلوں کی سنولاہٹ محسوس کرنے لگا۔ اٹھتے ہوئے انہوں نے میز پر دھرا اپنا سیل فون آن کیا اور مجھے دکھایا۔ پس منظر میں وال پیپر کے طور پر لگی جواں سال کلثوم نوازکی تصویر مسکرا رہی تھی۔ کلثوم کے ’بائو جی‘ نے چہرہ دوسری طرف موڑتے ہوئے گہری محبت میں گندھا صرف ایک سادہ و معصوم سا جملہ کہا __ ’’یہ مجھے بہت یاد آتی ہے۔‘‘


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔