اے ارض فلسطین!

آج ارض فلسطین ایک مرتبہ پھر لہو لہو ہے، فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ پھر شروع ہو چکا ہے، یہودی جو صدیوں سے در بدر تھے ،آج وہ اس زمین کے اصل مالکان کو بے گھر کرنے کے درپے ہیں۔

 آج ارض فلسطین انسانیت کو پکار رہی ہے،آج ارض فلسطین امت مسلمہ کی راہ دیکھ رہی ہے۔تاریخی طور پر یہودی اپنے وطن سے کئی بار اجڑے اور بسے ہیں۔ کبھی روم میں انہوں نے پناہ لی کبھی بابل میں جا بسے۔ 

کبھی عربوں اور کبھی عثمانیوں کے زیر نگیں رہے یہاں تک کہ ہٹلر نے انکا وہ قتل عام کیا کہ جس کی یاد آج بھی ہر یہودی کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے 1920ء سے پہلے ہی یہودیوں کو ایک جگہ بسانے اور ان کیلئے ایک الگ ملک قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔

تاریخی حقائق کے مطابق 1918ء میں فلسطین میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 6 لاکھ جبکہ یہودیوں کی آبادی صرف 60 ہزار تھی لیکن 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 83 ہزار تک پہنچ گئی یوں ایک منظم پروگرام کے تحت مسلمانوں کی آبادی گھٹتی رہی اور یہودیوں کی آبادی بڑھتی رہی۔یہاں تک کہ 1948ء میں یہودیوں کی آبادی 7 لاکھ تک پہنچ گئی اور پوری دنیا نے مل کر فلسطین کا حق غصب کر کے یہودیوں کو ایک الگ وطن دے دیا۔15 مئی 1948ء کو اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔

 اس دوران اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کے نتیجے میں اردن کے مغربی کنارے، مصر کی وادی سینا، اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کے علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔ یروشلم جہاں پر تینوں مذاہب کے مقدس مقامات ہیں اسے متنازع بنا دیا گیا۔ اور پھر عرب اسرائیل تنازع نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔

 فلسطینیوں کے حقوق غصب کرنے کے رد عمل میں وہاں کے نوجوانوں میں شدید رد عمل آیا۔ انہوں نے اسرائیل کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ فلسطینیوں کی طویل جدوجہد آزادی میں پی ایل او اس کی نمائندہ تنظیم بنکر ابھری۔ یاسر عرفات ایک دور میں نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پوری امت مسلمہ کے نوجوانوں کی ہیرو تھے۔ برصغیر کے مسلمان اس جدوجہد میں فلسطینیوں کے شانہ بشانہ نظر آئے۔

22 جولائی 1940ءفلسطین پر دہشت گرد تنظیموں نے بمباری کی تو اس وقت برصغیر کے مسلمانوں نے قرارداد کے ذریعے فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کی۔ اس سے پہلے 1938ءمیں قاہرہ میں انٹر پارلیمان کانگریس کا اجلاس ہوا تو مسلم لیگ کے دو رکنی وفد نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ بعدازاں لندن میں فلسطین سے متعلق ہونے والے ایک اجلاس میں قائداعظم نے مسلم لیگ کی نمائندگی کرتے ہوئے فلسطین میں یہودی آباد کاری کیخلاف نہ صرف زبانی آواز بلند کی بلکہ برطانوی وزیراعظم کو خط بھی لکھا۔

1947 ء میں ہی اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد کے ذریعے دو ریاستی حل کی بات کی جس سے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی اور فلسطین کے 56فیصد رقبہ کو اسرائیل کا حصہ بنا دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اس صریح ظالمانہ فیصلے کے خلاف بھی فلسطینی آج تک جدوجہد میں مصروف ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کے دوران مختلف فارمولے اختیار کیے گئے۔عالمی طاقتوں نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنیکی کوشش کی۔امریکہ کی طرف سے معاہدہ ابراہیم متعارف کروایا گیا۔

 لیکن ان تمام معاہدات کا مرکزی خیال اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرنا تھا جسے فلسطینیوں نے قبول نہ کیا۔فلسطینیوں کے گھر انکی مساجد اور انکے تعلیمی ادارے اسرائیل نے بمباری کر کے بار بار تباہ کیے۔ ان مظالم کے باوجود عربوں کو اسرائیل سے قریب کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہونے لگیں۔ایک الگ تجارتی روٹ کا تذکرہ بھی کیا جانے لگا دوسری طرف فلسطین کے حقیقی نمائندوں سے بات کرنے کے بجائے انکو نظر انداز کرنے کی عالمی پالیسی نے حماس اور پی ایل او کو متفکر کردیا۔ اس پس منظر میں حماس نے ’’الاقصی طوفان ‘‘برپا کردیا۔

 اس طوفان میں حماس کے تقریباً 1500 کارکنوں نے مقبوضہ علاقے کی رکاوٹیں توڑ دیں اور جنوبی اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں داخل ہو کر ایک ایسا حملہ کیا جس نے اسرائیل کے جدید ترین سیکورٹی حصار کو توڑ ڈالا۔ اسرائیلی حکومت جو خود سیاسی خلفشار کا شکار ہے اسکا قومی دفاعی نظام پاش پاش ہو گیا۔کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں کی ناکامی اور سیاسی عمل میں فلسطینیوں کی لا تعلقی کا رد عمل اتنا شدید تھا کہ اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

اب غزہ پر اسرائیل کی انساسیت سوز بمباری جاری ہے۔1800 سے زائد فلسطینی شہید 4 لاکھ 23 ہزار بے گھر ہو چکے ہیں 23 ہزار سے زیادہ مکان تباہ ہو چکے ہیں 2 لاکھ بیس ہزار فلسطینی اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔انبیاء کی سرزمین آج خوراک پانی اور ادویات کی قلت کا شکار ہے۔پی ایل او اور حماس جو سیاسی طور پر باہم متحارب ہیں وہ اب ایک پیج پر ہیں۔

سعودی عرب اور ایران کا موقف پہلی مرتبہ یکساں ہیں۔ پوری دنیا کے عوام فلسطینیوں کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں’'نارملائزیشن‘' کا عمل رک گیا ہے حماس نے ایک بڑا رسک لیکر عالمی منصوبہ سازوں کو اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔لیکن ارض فلسطین پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ دھرتی کب تک خون سے رنگین ہوتی رہے گی۔کب تک فلسطینی مائیں خواتین ہوتی رہیں گی۔کب تک فلسطینیوں کے جنازے اٹھتے رہیں گے۔ فلسطینیوں کی آزادی کی صبح کب طلوع ہوگی۔دنیا کے 56 اسلامی ممالک کیلئے یہ سوال انکے ضمیر پر کچوکا لگاتا رہیگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔