فیکٹ چیک: کیا پنجاب میں زرعی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے؟

پنجاب میں زرعی شعبے کے ٹیکس کی درجہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور نہ ہی کسانوں پر کوئی نیا ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر مختلف پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت نے ملک میں ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے صوبے میں زرعی اراضی سے ٹیکس کی وصولی میں خاطر خواہ تبدیلیاں کی ہیں۔

آن لائن پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پہلےزمینداروں کو زمین کا ٹیکس فلیٹ ریٹ پر ادا کرنا پڑتا تھا مگر اب 5 ایکڑ سے زیادہ کاشت شدہ اراضی سے سالانہ 4 لاکھ روپے سے زائد آمدن حاصل کرنے والے کسان کو انکم ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے۔

دعویٰ

16 ستمبر کو ایک X صارف نے پنجاب کے ضلع خانیوال میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو کے دفتر سے تمام اسسٹنٹ کمشنرز کے لئے جاری ہونے والے ایک مبینہ خط کا اسکرین شاٹ پوسٹ کیا۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ ”آپ کوآگاہ کیا جاتا ہے کہ بورڈ آف ریونیو کےبااختیار ممبر ٹیکس نے ایک انتہائی اہم معاملے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنے کی ہدایت کی ہے۔“

اس خط میں مزید کہا گیا کہ تمام اسسٹنٹ کمشنرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ جن کسانوں کی زرعی آمدنی 4لاکھ روپے سے زیادہ ہو، ان کے لئے ٹیکس ریٹرن فائل کرنا ضروری ہے۔

X صارف نے لکھا کہ ”اور کتنا ظلم کرنا ہے ؟ زمیندار یا کاشتکار جو 5 ایکڑ سے زیادہ زمین کاشت کر کے 4 لاکھ سالانہ سے زیادہ انکم حاصل کر رہا ہے اس کے لئے ایگریکلچر ریٹرن جمع کروانا لازمی ہے۔ “

ایک اور X صارف نے لکھا کہ ”نگراں حکومت کا ایک اور کارنامہ ، زمیندار یا کاشتکار جو 5 ایکڑ سے زیادہ زمین کاشت کر کے 4 لاکھ سالانہ سے زیادہ انکم حاصل کر رہا ہے اس کے لئے ایگریکلچر ریٹرن جمع کروانا لازمی ہے۔ بصورت دیگر اسسٹنٹ کمشنر خود سے آپ کی انکم کا اندازہ لگا کر ٹیکس عائد کر دیں گے۔ “

اس سے ملتی جلتی پوسٹس کو دوسرے سوشل میڈیا صارفین نے یہاں اور  یہاں بھی شیئر کیا۔

حقیقت

پنجاب میں زرعی شعبے کے ٹیکس کی درجہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور نہ ہی کسانوں پر کوئی نیا ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

پنجاب میں زرعی ٹیکس وصول کرنے والے بورڈ آف ریونیو کے ممبر ٹیکسز طارق قریشی نے جیو فیکٹ چیک کو اپنے دفتر میں بتایا کہ 1997ء میں پنجاب ایگریکلچرل انکم ٹیکس ایکٹ کے قانون بننے کے بعد کسانوں پر ایک طے شدہ لینڈ بیسڈ ٹیکس عائد کیا گیا۔

اراضی پر مبنی ٹیکس کا اندازہ زرعی سال کے دوران کسان کےکاشت کئے گئے رقبے کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔

لیکن طارق قریشی نے اس بات کی وضاحت کی کہ 2001ء میں ایک کسان کی سالانہ آمدنی پر بھی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جبکہ 1997ء کا قانون زرعی آمدنی کو کاشتکاری کے لیے استعمال ہونے والی زمین سے حاصل ہونے والی آمدن کے کسی بھی کرایے کے طور پر بیان کرتا ہے۔

طارق قریشی کا کہنا تھا کہ ” 1997ء میں صرف لینڈ بیسڈ تھا۔2001ء میں جب یہ انکم بیسڈ شروع ہوا تو اس کے بعد ان دونوں کا کمپیریزن [موازنہ] ہوتا ہے، جو بھی ان میں سے زیادہ ہو گا وہ لاگو ہو جائے گا۔ “

انہوں نے مزید کہا کہ زرعی شعبے کے لیے قوانین یا ٹیکس کے نظام میں  حال ہی میں کوئی نئی تبدیلی نہیں کی گئی ۔

سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کے تعلقات عامہ کے افسر مظہر حسین نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔

مظہر حسین کاکہنا تھا کہ خانیوال میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرریونیو نے صرف ریونیو حکام کو اس بات کی یاد دہانی کے لیے یہ خط بھیجا کہ ٹیکس ڈیڈ لائن سے پہلے جمع ہو جائے، انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں ٹیکس کے قانون یا قواعد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

پنجاب کےضلع لیہ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو شرجیل حفیظ وٹو نے بھی جیو فیکٹ چیک کو ٹیلی فون پر بتایا کہ بورڈ آف ریوینو کئی سالوں سے کسانوں سے انکم ٹیکس وصول کر رہا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

کسان زرعی زمینوں پر کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟

زرعی اراضی پر ٹیکس ریٹس

مندرجہ بالا ٹیبل میں وہ مقررہ ٹیکسز دئیے گئے ہیں جو کسان زرعی سال کے دوران کاشت کئے گئے رقبے پر ادا کرتے ہیں۔ (بورڈ آف ریونیو کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا)
مندرجہ بالا ٹیبل میں وہ مقررہ ٹیکسز دئیے گئے ہیں جو کسان زرعی سال کے دوران کاشت کئے گئے رقبے پر ادا کرتے ہیں۔ (بورڈ آف ریونیو کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا)

زرعی آمدنی پر ٹیکس ریٹس

مندرجہ بالا ٹیبل میں وہ ٹیکسز دئیے گئے ہیں جو کاشتکار زرعی سال کے دوران اپنی آمدنی پر ادا کرتے ہیں۔ (بورڈ آف ریونیو کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا)
مندرجہ بالا ٹیبل میں وہ ٹیکسز دئیے گئے ہیں جو کاشتکار زرعی سال کے دوران اپنی آمدنی پر ادا کرتے ہیں۔ (بورڈ آف ریونیو کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا)

اضافی رپورٹنگ: نادیہ خالد

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے

رابطہ کریں۔