23 اکتوبر ، 2023
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کردی گئی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران فرد جرم عائد کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔
عدالت نے فرد جرم روکنے کی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کردی، عدالت کا کہنا تھا کہ آج کی تاریخ فرد جرم کے لیے رکھی تھی، فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔
عدالت نے کیس کے گواہان کے بیانات 27 اکتوبر کو طلب کرلیے ہیں، سائفر کیس کی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔
چارج شیٹ کے مطابق ملزمان کے خلاف رواں سال 15 اگست کو سائفر کیس کا مقدمہ درج ہوا،ملزمان خفیہ دستاویزات کی معلومات سے متعلق رابطوں میں ملوث پائے گئے، 7 مارچ 2022 کو واشنگٹن سے موصول سائفر غیر متعلقہ افراد کو سونپ دیا گیا، سائفر ٹیلی گرام کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، ملزمان نے سائفرکو قومی سلامتی کے برعکس ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا، 28 مارچ 2022 کو بنی گالہ میں خفیہ اجلاس میں سائفر مندرجات کا غلط استعمال کیا گیا، سابق وزیراعظم نے اعظم خان کو سائفر کے منٹس اپنے انداز سے تیار کرنے کی ہدایت کی، سابق وزیراعظم نے بد دیانتی اور بدنیتی سے جان بوجھ کر سائفر تحویل میں رکھا۔
چارج شیٹ میں کہا گیا ہےکہ سائفر جیسی اہم ترین سرکاری دستاویز کو غیرقانونی طور پر اپنےقبضے میں رکھا، ملزمان نے ریاست کے سائفرسکیورٹی سسٹم پرسمجھوتا کیا، ملزمان کی سائفر ٹیلی گرام پر بد دیانتی سے ریاست کو نقصان پہنچا، امریکامیں سابق سفیر ڈاکٹر اسد مجید نے ڈونلڈ لو کو پاکستان ہاؤس میں ظہرانہ دیا، ملاقات میں ہوئی گفتگو کے منٹس سائفر کے ذریعے سیکرٹری خارجہ کوبھجوائے گئے، 7مارچ 2022 کو موصول سائفر کو وزارت خارجہ کے ایس ایس پی سیکشن کی حفاظتی تحویل میں دیا گیا، سائفرانتہائی اہم اورخفیہ دستاویز ہے جسےکسی صورت بھی شئیر نہیں کیاجاسکتا، سابق وزیراعظم اور وزیرخارجہ کو مجرم قرار دے کر باقاعدہ ٹرائل شروع کیا جائے۔
آج سماعت کے موقع پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی۔
واضح رہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی ان دنوں سائفر کیس میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
سائفر معاملہ کیا ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفرکو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کو لے کر پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کی جاچکی ہے۔
اس کے علاوہ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
اس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیا تھا۔
اعظم خان پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور وہ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔
سائفر کے حوالے سے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی اور افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔