Time 31 اکتوبر ، 2023
بلاگ

’لیول پلینگ فیلڈ‘ کا واویلا

’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ (Level Playing Field) یعنی انتخابات میں تمام جماعتوں کے لئے یکساں اور منصفانہ مواقع کا مطالبہ، پیپلزپارٹی کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ عام طور پر اِس طرح کا واویلا انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد اُس وقت اٹھتا ہے جب جاگتی آنکھوں کے سَت رنگے خواب چکنا چُور ہو جاتے ہیں اور اولین نتائج کیساتھ ہی ایک دِل گرفتہ سی شام، شامِ فراق کی طرح شکست خوردگان کے اُجاڑ خیموں میں آن اُترتی ہے۔ 

اِسکی سب سے واضح مثال 2013ء کی انتخابی شکست کے بعد عمران خان کا آتش فشانی ردّعمل تھا۔ خواب تراشوں اور پیغمبرانہ تمکنت کیساتھ الہامی لہجے میں پیش بینی کرنے والے مبصرینِ خود پرست نے خان کے دِل ودماغ میں نقش کردیا تھا کہ ایک بے پناہ طوفان بحیرہ عرب کے ساحلوں سے لگا کھڑا ہے جو 11 مئی کو سحر دَم اٹھے گا، نوازشریف سمیت سب کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جائیگا اور تخت طائوس، کشتیِ نوحؑ کی طرح، مارگلہ کی پہاڑی پہ آٹھہرے گا۔ طفلانِ خود معاملہ کو لگام نہ ڈالی جاتی تو عین ممکن ہے کہ وہ ابرِنو بہار 2013ءہی میں برس جاتا جس نے 2018ءمیں خان صاحب کی کشتِ ویراں کو جل تھل کردیا۔

انتخابی نتائج کے بعد، دھاندلی کا واویلا، شکست خوردگان کا شیوہ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں کی تالیفِ قلب کیلئے اس طرح کے جواز تراشتی رہتی ہیں۔ لیکن جب یومِ انتخاب سے مہینوں قبل ہی ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ نہ ملنے کو بیانیے کا درجہ دے دیا جائے تو جان لینا چاہئے کہ کسی متوقع افتاد کی آہٹ ابھی سے محسوس کی جانے لگی ہے اور جلی حروف میں لکھا نوشتۂِ دیوار کمزور بصارت والی آنکھوں کو بھی دکھائی دینے لگا ہے۔

پیپلزپارٹی ایسا کیوں کررہی ہے؟ کیا ملک کے طول وعرض میں اُسکی مقبولیت کی دِلپذیر ہوائیں چل رہی تھیں جو اچانک راستہ بھول کر ’رائیونڈ‘ کی طرف نکل گئی ہیں؟ کیا رائے عامہ کے جائزے اسے پاکستان کے عوام کی پہلی ترجیح بتا رہے تھے؟ کوئی وجہ تو ہونی چاہئے کہ وہ وزارت عظمیٰ کی پالکی ’’بلاول ہائوس‘‘ میں اترتے دیکھنے لگی تھی کہ یکایک سارا کھیل بگڑ گیا۔ کابینہ میں بیٹھے دو تین بے ضرر سے وزیر اور نگران وزیراعظم کا پرنسپل سیکریٹری (جو اَب مستعفی ہوچکا ہے) بہرحال اتنے طاقت ور نہیں ہوسکتے کہ پیپلزپارٹی جیسی عوامی جماعت کے سیلِ بے پناہ کا راستہ روک لیں۔

’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کی فریادِ یتیم میں، پی۔ٹی۔آئی کے کچھ بچے کھچے اور روپوش خیرخواہ بھی شامل ہیں جو خود کو ’’تحریکِ انصاف‘‘ کہتے ہیں لیکن اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کے آشیانے کو خاکستر کر دینے والی بجلیاں کسی خفیہ منطقے نہیں، بنی گالہ اور زمان پارک کی آغوش میں پلتی رہیں۔ 9مئی، ایک سوچی سمجھی سازش اور بھرپور منصوبہ بندی کی کوکھ سے پھوٹا۔ آج جو قیمت پی۔ٹی۔آئی کو ادا کرنا پڑ رہی ہے وہ 9 مئی کی بھیانک واردات کے مقابلے میں کچھ ایسی بھاری بھی نہیں۔ 

کوئٹہ سے پشاور تک چشم زدن میں دفاعی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر نفرت انگیز حملے، ان حملوں کے ذریعے فوج میں اشتعال اور ارتعاش پیدا کرنے کا منصوبہ، اس تلاطم کے ذریعے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کو معزول کرنے کی سازش اور پھر نئی انقلابی فوجی قیادت کے زور پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا۔ کیا اس سے بڑی کسی سازش یا بغاوت کا تصور کیا جاسکتا ہے؟1951ءمیں جنرل اکبر خان سازش سے لے کر 1995ءمیں جنرل ظہیرالاسلام کی ’’آپریشن خلافت‘‘نامی سازش تک کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ 9 مئی جیسی شورش بپا کرتے۔ اگر 9مئی کی مکروہ سازش کو بھی معمول کی سیاسی سرگرمی، عمومی احتجاج، جمہوری استحقاق اور بنیادی حقوق کے زمرے میں ڈالاجاسکتا ہے تو بجا، ورنہ یہ سب کچھ کرنے والی جماعت کے منہ سے ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کی آرزو ، مضحکہ خیز ہی لگتی ہے۔

’لیول پلینگ فیلڈ‘ کی کمین گاہوں سے برسنے والے تیروں کا رُخ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے جسے شاید ہی کبھی یکساں منصفانہ انتخابی مواقع ملے ہوں۔ رواں صدی میں اب تک چار انتخابات ہوچکے ہیں۔ 2002ءکے انتخابات، پرویز مشرف کے زیراہتمام منعقد ہوئے جو نوازشریف کے خون کا پیاسا تھا۔ تب نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں جلا وطن تھے اور آصف زرداری جیل میں۔ ہر سُو نوزائیدہ مسلم لیگ (ق) کا طوطی بول رہا تھا۔ سو وہ سرخ قالین پہ چلتی مشرف کے آراستہ پیراستہ حُجلۂِ عروسی میں آبیٹھی۔

دوسرے انتخابات، 2008ء میں ہوئے۔ مشرف تب بھی اقتدار میں تھا۔ اُسکے ایما پر جنرل اشفاق پرویز کیانی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان معاملات طے پاگئے۔ مشرف کو بے وردی صدر رہنے اور پیپلزپارٹی کو سازگار انتخابی فضا کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ دئیے جانے کے عہدوپیمان ہوگئے۔ نوازشریف جلاوطنی ترک کرکے وطن آیا تو اُسے ایک بارپھر جدہ بھیج دیا گیا۔ مفاہمت کے نتیجے میں محترمہ پاکستان واپس آگئیں تو سعودی عرب نے نوازشریف کو پنجرے میں بند رکھنے سے انکار کردیا۔ مشرف خود دوڑے دوڑے سعودی عرب پہنچے لیکن بات نہ بنی۔ نوازشریف الیکشن سے چند دن قبل واپس آگئے۔ این۔اے 120سے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے جو مسترد کردئیے گئے۔ شہبازشریف بھی انتخابات سے باہر کردئیے گئے۔ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ پر ہیوی رولر پھیرکر ’پچ‘ پوری طرح تیار کردی گئی۔ محترمہ تو شہید ہوگئیں لیکن پیپلزپارٹی نے ’’مساوی انتخابی مواقع‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اقتدار میں آگئی۔

تیسرے انتخابات 2013ءمیں ہوئے۔ تب آصف علی زرداری صدر تھے۔ بڑی ہُنرمندی سے انہوں نے اپنے قریبی دوست، میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم کے عہدے پر بٹھادیا۔ چاروں نگران وزرائے اعلیٰ بھی ان کے نامزد کردہ تھے۔ محترمہ کے ملٹری سیکریٹری رہنے اور صدر زرداری سے تین سال کی توسیع پانے والے اشفاق پرویز کیانی، آرمی چیف تھے۔ ’’پروجیکٹ عمران‘‘ کی کمان، جنرل پاشا سے جنرل ظہیرالاسلام کو منتقل ہوچکی تھی۔ یہ تھی وہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ جس میں نوازشریف نے الیکشن لڑا اور وزیراعظم بنا۔

چوتھے انتخابات 2018ءمیں اُس وقت ہوئے جب نوازشریف اور اس کی بیٹی اڈیالہ جیل میں قید تھے۔ جنرل باجوہ پروجیکٹ عمران کے سنہری بجرے پر سوار ہوچکے تھے اور ملک مسلم لیگ (ن) کے لئے جلتا بلتا ریگستان بنادیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اُس نے نہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کی دہائی مچائی نہ بائیکاٹ کیا۔

انتخابات، تین ماہ دور ہیں اور پیپلزپارٹی یوں ماتم کناں ہے جیسے یومِ انتخابات کی سوگوار شام ابھی سے اُس کے آنگن میں اتر آئی ہے۔

زرخیز موسموں میں چراگاہ کی سب سے شاداب اور معطرگھاس سے شکم سیر ہونے کے باوجود، رُت بدلتے ہی اپوزیشن کا رُوپ دھار کر سولہ ماہی اقتدار پر تبرّیٰ بھیجنا ، سی سی آئی میں نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کی خوش دلانہ تائید وحمایت کے فوراً بعد ’’فوری انتخابات‘‘ کے نعرے لگانا، تقاضائے سیاست سہی، لیکن ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کے واویلے سے یوں لگتا ہے جیسے پی پی پی کے پائوں تلے سندھ کی زمین بھی تھرتھرانے لگی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔