01 نومبر ، 2023
سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کا کہنا ہے کہ جیو پر شو کرنے والے نجم سیٹھی کے خلاف کارروائی کیلئے فیض حمید نے مجھے پر دباؤ ڈالا۔
فیض آباد دھرنا عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران پیمرا کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا وکیل اپنے مؤکل کو عدالتی احکامات نہیں بتائے گا تو ہم نہیں سنیں گے، یہ فٹبال کا کھیل نہیں ہے، جس پر پیمرا کے وکیل کا کہنا تھا مجھے عدالت بات کرنے دے، خلل ڈالا جا رہا ہے، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وکیل کا یہ رویہ ہےکہ کہے عدالت خلل ڈال رہی ہے۔
وکیل پیمرا نے کہا مجھے نہیں سننا تو میں جا رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جائیں، آپ کو ہم نہیں سنتے، چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد پیمرا کے وکیل عدالت سے چلے گئے۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا تھا نظرثانی دائر کریں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ پیمرا کی لیگل ٹیم ہوتی ہے، سب نظرثانی کر رہے تھے، ہم نے بھی کر دی، چیئرمین پیمرا کے بیان پر چیف سٹس نے کہا یہ بھیڑچال کی درست مثال ہے، سب کر رہے ہیں تو ہم بھی وہی کریں گے۔
چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا پیمرا نے خود فیصلہ کیا کہ نظرثانی دائر کریں گے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے آپ سچ نہیں بتارہے کہ کس نے کہا تھا نظرثانی دائر کریں، اللہ آپ کو لمبی عمر دے لیکن سب کو مرنا ہے، ہمت کرکے سچ بولیں، آپ کے ہاتھ ہم مضبوط کرتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا ہم نے کہا جنہوں نے آپ کے معاملات میں مداخلت کی ان کیخلاف کارروائی کریں، آپ سے سچ نہیں بولا جائے گا، نظرثانی دائر کرنے کا جو فیصلہ ہوا بورڈ کا فیصلہ کہاں ہے؟ جس پر سلیم بیگ نے کہا کہ تحریری طور پر بورڈ کا فیصلہ موجود نہیں ہے، ہماری غلطی تھی کہ ہم نے نظرثانی دائر کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیمرا کے لیگل ڈائریکٹر سے استفسار کیا کس نے کہا تھا نظرثانی دائر کریں؟ کیا چیئرمین پیمرا نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے نظرثانی دائر کی؟ یا تو آپ چیئرمین پیمرا کو خوش کر لیں یا پاکستان کا قانون بچا لیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا آج ہم چیئرمین پیمرا کو پیمرا کا اور اپنا قانون پڑھائیں گے، آپ نے اپنا قانون پڑھا ہوتا تو پتا ہوتا کہ زبانی کوئی فیصلہ نہیں لیا جاتا، چیئرمین پیمرا سچ نہیں بول رہے،کسی خفیہ طاقت نے نظرثانی کا بولا ہو گا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا قانون کی خلاف ورزی پر ایکشن ہونا چاہیے، نظرثانی کیوں دائر کی گئی؟
چیف جسٹس پاکستان نے چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، آپ کی عمرکتنی ہے؟
چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے بتایا کہ اس وقت میری عمر 63 سال ہے، جس پر چیف جسٹس بولے اس وقت کا کیا مطلب؟ آج کی عمر ہی پوچھی ہے کل کی نہیں، اسکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونے میں کھڑا کر دے گا، پھر غلط بیانی کر رہے ہیں، اب چیئرمین پیمرا کہہ رہے ہیں خود نظرثانی کا فیصلہ کیا، آپ کی اور میری عمر میں کم وقت ہوتا ہے انسان کے پاس، کسی بھی وقت بلاوا آسکتا ہے لہذا سچ بولیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ آپ کس سے ڈرتے ہیں، جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا ہم اللہ پاک سے ڈرتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ ابصار عالم نے ریکارڈ سامنے لاکر بہادری کا مظاہرہ کیا، ابصار عالم نے وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف کو خطوط لکھے، جو ابصار عالم نےکیا وہ سب عوامی عہدیداروں کو کرنا چاہیے، جو کرسی سے اترتا ہے کہتا ہے میں مجبور تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے، اس وقت کے وزیراعظم اور چیف جسٹس پاکستان نے ابصار عالم کے خط پر کوئی ایکشن نہ لیا، ابصارعالم کی کسی نے مدد نہیں کی، آپ پر تو کوئی پریشر نہیں ہے تو حقائق بتا دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا اگر آپ جواب نہیں دیں گے تو ہم سخت حکم دیں گے، آپ کو بار بار موقع دے رہے ہیں کہ بتا دیں کس کے کہنے پر نظرثانی درخواست دائر کی، یہ کوئی گیم نہیں کہ عدالت کے ساتھ ایسے کھیلی جائے، چیئرمین پیمرا صاحب کچھ کہنا ہے تو بتائیں ورنہ ہم اپنا حکم جاری کریں گے۔
سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا میرے آپ سے کچھ سوالات ہیں، آپ نے جو وزیراعظم کو خط لکھا اس میں کوئی اور شکایت کی، آپ نے کہا میڈیا میں کچھ غلط عناصر ہیں، آپ کے خط پر وزیراعظم کیا ایکشن لیتے؟
ابصارعالم نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت میڈیا حکام کے پاس کچھ ایجنسیوں کے لوگ جاتے تھے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہ آپ کے خطوط کے جوابات دیے گئے یا نہیں؟ ابصار عالم نے کہا میرے خطوط کا جواب نہیں دیا گیا۔
چیف جسٹس نے ابصار عالم سے استفسار کیا آپ وزیراعظم ہوتے تو کیا کرتے؟ جس پر ابصار عالم کا کہنا تھا دھمکی آمیز کال میرے ماتحت افسر کو آئی جو میں نے نواز شریف اور آرمی چیف کو فارورڈ کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کو کال کس نے کی تھی اور وزیراعظم اس میں کیا کر سکتا تھا، جس پر ابصار عالم نے کہا جو کال مجھے کی گئی اس میں کوئی نمبر نہیں تھا، چیف جسٹس پاکستان بولے ایف آئی اے یا پولیس کال ریکارڈ پر کارروائی کر سکتی تھی، وزیراعظم کوئی تحقیقاتی افسر نہیں ہوتا۔
سابق چیئرمین پیمرا نے کہا دھمکی آمیز کال پیمرا میں ریکارڈ ہوئی، جسٹس اطہرمن اللہ کے ماضی کے اور موجودہ میرے حوالے سے کلمات زندگی کا سرمایہ ہیں، نگران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی تمام صورتحال سے آگاہ کیا تھا، ایجنسی کا حکم نہ ماننے پر میرے خلاف 3 درخواستیں عدالتوں میں دائر ہوئی تھیں، مجھے کچھ عرصے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، عدالتی حکم پر سچ سامنے لایا ہوں۔
چیف جسٹس نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا عدالت پر کچھ نہ ڈالیں، آپ آرام سے گھر بیٹھیں، جو باتیں آپ کہہ رہے ہیں اس کا ریکارڈ بھی دیں، آپ کہہ رہے اگر بلایا ہوتا تو پیش ہوتا اس سے تو عدالت بُری بن رہی ہے، ہم نے آپ کو نہیں بلایا آپ خود آئے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ابصار عالم صاحب، آپ کے الزامات بہت سنجیدہ ہیں، جب آپ چیئرمین پیمرا تھے تب بھی یہ سب باتیں کرنی چاہیے تھیں۔
ابصارعالم نے کہا جیو پر شو کرنے والے نجم سیٹھی کے خلاف کارروائی کیلئے فیض حمید نے دباؤ ڈالا، نجم سیٹھی نے جیو پر پروگرام میں اسٹبیلشمنٹ کیلئے ادارہ جاتی کرپشن کا لفظ استعمال کیا، نجم سیٹھی کا پروگرام بند نہ کرنے پر مجھے عہدے سے ہٹایا گیا، چیف جسٹس نے پوچھا کیا آپ کو ہٹانے کی وجہ یہی تھی؟ جس پر ابصار عالم نے جواب دیا یس مائی لارڈ۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا آپ کے بعد چیئرمین پیمرا تعینات ہونے والے صاحب تو کہہ رہے ہیں ان پر کوئی دباؤ نہیں، موجودہ چیئرمین پیمرا اُسی دورمیں تعینات ہوئے لیکن کہتے ہیں ان کے کام میں کبھی مداخلت نہیں ہوئی، جس پر ابصار عالم کا کہنا تھا موجودہ چیئرمین پیمرا خوش قسمت آدمی ہیں، ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر فیض حمید نے انتقام کا نشانہ بنایا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کسی کی پیٹھ کے پیچھے بیان نہیں دیتے، اگر کمیشن بنا آپ وہاں بولیں گے؟ جن پر آپ الزام لگا رہے ان کو بھی بلایا جائے پھر آپ ان کے سامنے بیان دیں، جس پر ابصار عالم نے کلمہ پڑھ کر جواب دیا میں ان کے سامنے یہی بیان دوں گا، مجھے کہا جاتا تھا کہ ایجنسیوں کا بندہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کے خلاف جو مقدمات ہوئے ان کی تفصیل ہمیں دے دیں، سابق چیئرمین پیمرا نے جواب دیا جیو اور ڈان کو نمبروں سے ہٹایا گیا تو میں نے بحال کر دیا تھا جو میرا جرم بن گیا، میں اپنی حد تک صفائی دینا چاہتا ہوں بطور چیئرمین پیمرا اپنی ذمہ داری پوری کی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ صفائی نہ دیں، ہم نے پیمرا کو کہا تھاعدالت کے حکم پر عمل کیا جائے۔