قاضی فائز عیسیٰ اور نئی نویلی سپریم کورٹ

پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلہ پارلیمان کی آن بان شان بحال کر گیا، ملٹری کورٹس غیر قانونی قرار پائیں، بالآخر الیکشن کمیشن نے آج 11فروری 2024 ء کو الیکشن کی تاریخ بھی دے ڈالی۔

 آنے والے دنوں میں ملک کی قسمت کا محور و مرکز سپریم کورٹ آف پاکستان ہی نے رہنا ہے ۔ قاضی فائز عیسیٰ، چیف جسٹس کیا بنے، عدالتی ماحول یکسر بدل چُکا ہے ۔’’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘کیس پہلی ترجیح بنا، عدلیہ کاقبلہ متعین ہو گیا۔ ہر وہ کیس جو ’’شہادت گہہ اُلفت میں قدم ‘‘، قاضی صاحب کی پہلی ترجیح بن چُکا ہے۔

صد حیف! لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور جسٹس قاضی فائز کو عہدے سنبھالنے سے پہلے ہی عمران خان اور اُس کے ٹولے کی مغلظات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اُن کیخلاف کھلے عام، بند کمرے ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز بغض، عناد، جھوٹ سے بھرپور گفتگو، پوسٹس کی بھرمار رکھی۔ اگرچہ مملکت کو نقصان پہنچایا، اپنی سیاسی لٹیا ڈبو گیا، ریاست بحران میں ہے ۔ میری قاضی فائز عیسیٰ سے عقیدت مندی کی وجہ اُن کی بااُصول ذات کے علاوہ اُن کا حسب و نسب اور خاندانی پسِ منظر بھی ہے۔ اعلیٰ اقدار سچائی، دیانتداری، اصول، ضابطہ، وقار، شرافت کا ایک سلسلہ ، تین نسلوں سے اُنکی میراث ہے، ایک زمانہ معترف ہے ۔

قاضی صاحب جب سے عدالتی منصب پر فائز ہوئے ،برسوں سے’’آئین و قانون کو گھر کی لونڈی ‘‘سمجھنے والے مفاداتیوں نے اپنے راستے کا کانٹا سمجھا، راستے کو صاف رکھنے ، قاضی صاحب کو لاچار بنا نے کیلئے درجنوں چالیں ترتیب دے ڈالیں ۔ پچھلے سال جسٹس بندیال کو شدت سے 5 ججز کی ضرورت اس لیے کہ قاضی فائز عیسیٰ کو فارغ کر سکیں۔ اب بھلا جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے ،’’واللہ خیرالماکرین‘‘، بھول گئے کہ اللہ تعالیٰ کی چال سب پر بھاری بیٹھنی ہے ۔ آج ذی وقار قاضی فائز چیف جسٹس کے عہدے پر فائز، دہائیوں بعد اس عہدے کی شان شایان عزت بحال کر دی ہے۔

عمران خان باجوہ جوڑی کے کرتوتوں نے آئین و قانون کی پامالی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ا ن شاء اللہ قاضی صاحب ہی نے تو آئین اور قانون کے تابع بنانا ہے۔ وقت ضائع کیے بغیر جُت چکے ہیں۔ آئین کی حُرمت کیلئے جان جوکھوں میں ڈالنا اور جان ہتھیلی پر رکھنا قاضی صاحب کا بنیادی عقیدہ ہے۔ جبکہ میرا ایمان کہ گریٹ قاضی محمد عیسیٰ کا لختِ جگر قاضی فائز’’13 ماہ کی عدالتی سربراہی ‘‘کیلئے ایک صدی کی اپنی خاندانی ساکھ داؤ پر نہیں لگنے دیں گے ۔

پچھلے دور میں آئینی مقدمات سرد خانوں میں برف بن چُکے تھے۔ منصب سنبھالتے ہی ایک ایک سے نبردآزما ہیں۔ ’’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ خاطر میں نہ لا کر عمر بندیال نے اپنی شہرت کو داغدار کیا۔ قاضی صاحب نے آتے ہی اپنے فیصلے سے اپنے اختیارات محدود کئے، تاریخ رقم کی۔ ’’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ‘‘، ’’ ملٹری کورٹس اور90 روز میں الیکشن‘‘، قاضی فائز کے لیے تینوں کیسز بطور ’’چیک میٹ ‘‘بندیال صاحب کا تحفہ تھے۔ تینوں مقدمات آناً فاناً نبٹا ڈالے۔ 90 روز میں الیکشن کا کیس آج زیر سماعت، الیکشن کمیشن کو 11 فروری کی تاریخ دینا پڑی ۔

ملتے جلتے کئی اور مقدمات دھڑا دھڑ زیرِ سماعت، ایسے سارے مقدمات میں دورانِ سماعت چیف جسٹس اور برادر ججز کی آئینی نکتہ آفرینی حوصلہ افزا ہیں۔ ہر عدالتی ریمارکس آئین و قانون کی پاسداری کا آئینہ دار ہے ۔ کل فیض آباد دھرنا کیس پر نظر ثانی اپیل پر کارروائی نے قومی میڈیا کو گرفت میں لئے رکھا۔ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘ کہ تمام فریقین نے نظر ثانی کی اپیلیںواپس لے لیں ۔ عمران خان کا اپیل واپس لینا ’’وٹرن‘‘ مزاحیہ پروگرام ہی تو تھا ۔ جسٹس قاضی صاحب نے اپنے فیصلے پر عمل نہ ہونا سنگین خلاف ورزی بتلایا، ’’یہ کونسا قانون ہے کہ نظر ثانی اپیل دائر ہو جائے تو فیصلےپر عملدرآمد نہ ہو سکے‘‘۔

اپنے کئی کالموں میں، TV پروگرام میں ہفتوں سے خدشات کا اظہار کہ ریاست کا قاضی فائز کو ہضم کرنا مشکل ہوگا۔ ہمارے اداروں کو ماورائے آئین و قانون اپنے آپ کو انصاف دینا اُن کی عادت بن چُکا ہے۔ خدانخواستہ یہ روش جاری رکھی گئی تو مملکت کا باجا بجنا ہے۔ 11 فروری کو الیکشن ہو پائے گا یا نہیں، شکوک و شبہات کا رہنا تشویش ناک، یہ علیحدہ بحث ہے ۔ ادارے سپریم کورٹ کے آگے سر جھکائیں گے یا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہونگے ، آنے والا وقت بتائے گا۔

دو ہفتہ پہلے سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل غیر قانونی قرار دیا ۔ تکلیف دہ، آج کے دن تک فیصلہ کیخلاف حکومت نے اپیل دائر کی نہ عملدرآمد یقینی بنایا ۔ کم و بیش 105 افراد آج بھی عسکری قید و بند میں ہیں ۔ قاضی صاحب کے فیض آباد دھرنا کیس کے دوران کل ہی کے ریمارکس کہ ’’فیصلوں پر عملدرآمد کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے‘‘ ۔ ایسے رویہ کو دوبارہ جگہ ملنا اور سپریم کورٹ کے ملٹری کورٹس فیصلہ کو بظاہر خاطر میں نہ لانا ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔ اب تک مقید افراد کو جیل یا تھانوں کے حوالے کر دیا جانا تھا ۔

قومی تنصیبات اور استعاروں پر حملہ کرنا سنگین جُرم ہے ۔ جوکوئی ملوث ، آئین و قانون کےمطابق سزا ملنی ضروری، اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی جھوٹے مقدمات بنانا اور ماورائے آئین و قانون سہاروں کی عادت ترک کرنا اتنا ہی ضروری ۔ میرا بیٹا بیرسٹر حسان نیازی، 11 ہفتے سے’’قیدِ پلس ‘‘میں ہے ۔ باقی تمام بچوں کو اُنکے والدین سے باقاعدہ ملنے کی اجازت ہے ۔مجھے صرف ایک دفعہ 2 ہفتے پہلے 20 منٹ ملاقات کرنے دی گئی ۔قطع نظر اس کے کہ اُس پر لگے الزامات جھوٹ کا ایک پلندہ ہیں ، سمجھ نہیں آتا کہ ریاست یا ادارے جھوٹ کا سہاراکیوں لیتے ہیں۔’’مائٹ اِز رائٹ‘‘کی دھرتی میں شکایت بنتی نہیں ،شکایت اس لیے بھی نہیں کہ شیخ رشید اور درجنوں دوسروں پر بھی الزامات نہیں تھے لیکن ایسوں کا حشر نشر سب کے سامنے ہے ۔

اگر میرا بیٹا کسی جلاؤ گھیراؤ اشتعال انگیزی پُر تشدد کارروائی یا بے حُرمتی یا فوجی تقدس کی پامالی میں ملوث ہو تو بمطابق قانون قرار واقعی سزا دی جائے ۔ یہ کہاں کا انصاف کہ جناح ہائوس سے سینکڑوں گز دور ، دورانِ تقریر کوئی دوسرا بندہ پیچھے سے ہوا میں وردی بلند کرے جبکہ حسان خان وردی کی طرف اشارہ کرکے ایک’’نازیبا فقرہ‘‘چسپاں کرے، اگر اُس ایک فقرے پر کوئی سزا بنتی ہے تو یقیناً ملنی چاہیے ۔ جھوٹے کیسز بنانے کی بھلاکیا مجبوری ہے ؟ طاقتور اداروں کو نئی سپریم کورٹ کے سامنے بمطابق آئین و قانون اپنے رویوںپر غور کرنا ہوگا ، تعاون کرنا ہوگا کہ اِسی میں مملکت کی عافیت و سالمیت ہے ۔

دہائیوں سے طاری عدالتی بے نوری کے بعد بڑی مشکل سے عدالتوں کو روشنی ملی ہے ۔ کیا آئین و قانون کا بول بالا ہوپائے گا ؟ خدارا مملکت میں خوشی کے ناقابلِ یقین لمحات پنپنے دیں ۔ میرا فکر و فاقہ، خدشہ ، کہیںPCO کی بد روح ایک بار پھر مملکت خداداد کے دورے پر آنے کو تو نہیں ہے ؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔