04 نومبر ، 2023
ہمارے ہاں سب افغانوں کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں مقیم افغانوں کی کئی اقسام ہیں۔ پہلی قسم تو ان پختونوں کی ہے جن کے آبائو اجداد ماضی بعید میں قیام پاکستان سے قبل افغانستان سے پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ یوں وہ نسلاً افغان ہیں لیکن پاکستان میں پیدا ہونے کی وجہ سےشروع دن سے پاکستانی ہیں۔
دوسری قسم ان افغانوں کی ہے جو 1979ءمیں پاکستان آئے تھے ۔ ان میں زیادہ تر کوچی نسل کے لوگ ہیں اور اکثر کپڑے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ یہ لوگ باقاعدہ پاکستانی شہری بن چکے ہیں ۔ ان کے پاس پاکستانی شہریت ہے اور وہ پاکستانی سماج کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں۔
تیسری قسم ان مہاجرین کی ہے جو سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد یہاں آئے۔ یہ لوگ یواین ایچ سی آر کے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں اور ان کے نام پر پاکستانی حکومت کو خاطر خواہ امداد بھی ملتی رہی ۔ ان میں جو بااثر افغان کمانڈر تھے، ان میں کئی ایک ارب پتی ہیں۔ ان میں کئی ایک چوری چھپے پاکستانی دستاویزات بھی حاصل کرچکے ہیں اور پاکستان میں ان کی جائیدادیں بھی ہیں۔ مثلاً وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عمران خان کے بعد سب سے عالی شان مقام پر واقع گھر ایک افغان کمانڈر کا ہے۔
چوتھی قسم ان افغانوں کی ہے جن میں زیادہ تر سابق خلق اور پرچم پارٹی کے وابستگان شامل ہیں، جو افغانستان میں نجیب اللہ حکومت کے خاتمے اور مجاہدین کے قبضے کے بعد پاکستان آئے تھے ۔ان میں کچھ ذاتی اثرورسوخ سے اپنے لئے پاکستانی دستاویزات بناچکے ہیں اور کچھ کیلئے پاکستان کی پختون قوم پرست جماعتوں نے یہ خدمت انجام دی ہے ۔
پانچویں قسم ان افغان لبرلز یا پھر عام افغانوں کی ہے جو افغانستان پر طالبان کے پہلے قبضے کے بعد پاکستان آئے تھے ۔ ان میں کچھ نائن الیون اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد واپس افغانستان جاچکے اور کچھ پاکستان میں رہ گئے ۔چھٹی قسم طالبان، ان کے ہمدردوں اور اہل خانہ کی ہے جو افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد پاکستان آئے تھے ۔ ان میں نمایاں لوگ طالبان کی دوبارہ فتح کے بعد افغانستان جاچکے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد حتیٰ کہ طالبان حکومت کے عہدیداروں کے بعض رشتہ دار اب بھی پاکستان میں مقیم ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل طالبان کابینہ کے ایک وزیر کے عزیز کی شادی تھی تو تقریب کابل کی بجائے پشاور میں منعقد ہوئی۔
ساتویں قسم ان طالبان مخالف عام افغانوں ، کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت میں کام کرنے والے لوگوں، صحافیوں اور فنکاروں کی ہے جو طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان آگئے ہیں ۔ وہ یا تو طالبان کے نظام کے تحت زندگی نہیں گزار سکتے یا پھر انہیں خوف ہے کہ واپس جانے کی صورت میں طالبان انہیں جیل میں ڈالیں گے یا پھر جان سے ماریں گے ۔
آٹھویں کیٹیگری ان افغانوں کی ہے جن کے ساتھ امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں نے اپنے ہاں پناہ دینے کا وعدہ کیا تھا اور وہ پارکنگ کیلئے پاکستان منتقل ہوئے تھے لیکن ابھی تک امریکہ یا کینیڈا وغیرہ نے انہیں اپنے ملکوں کے ویزے جاری نہیں کئے۔
ٹی ٹی پی کے معاملے پر طالبان کی امارات اسلامی کے تعاون نہ کرنے کے جواب میں پاکستانی ریاست نے جب سے تمام غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے تو سب سے زیادہ پریشان طالبان کے حامی نہیں بلکہ ساتویں اور آٹھویں کیٹیگری میں آنے والے افغان ہیں۔ کیونکہ افغانستان پر امریکہ کے قبضے کے بعد جو طالبان اور ان کے حامی افغان پاکستان آگئے تھے، ان کے پاس کمپیوٹرائزڈ مہاجر کارڈز ہیں یا پھر بعض پاکستانی شہریت کی دستاویزات بنا چکے ہیں جبکہ ساتویں اور آٹھویں کیٹیگری میں طالبان کے خوف سے پاکستان آنے والوں کے پاس مہاجرین کے کمپیوٹرائزڈ کارڈ نہیں ہیں کیونکہ اس دوران حکومت پاکستان نے نئے مہاجرین کو قبول کرنے اور انہیں مہاجر کا اسٹیٹس دینے کی پالیسی ترک کی تھی۔ جب یہ لوگ پاکستان آرہے تھے تو انہیں مختصر مدت کے میڈیکل یا وزٹ ویزے ملے تھے اور اکثر کے ویزوں کی میعاد ختم ہوگئی ہے ۔ ان میں سے اکثر نے ویزوں میں توسیع کی کوشش کی لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کابل میں پاکستان کا ویزہ ایک سےلے کر دو ہزار ڈالر میں بک رہا ہے ۔ اسی طرح گزشتہ سال دو سال کے دوران پاکستان کے اندر مقیم نئے آنے والے افغانوں کے ویزوں میں توسیع جوئے شیر لانے کے مترادف تھا اور ہے۔ میں اور ہمارے کچھ اور ساتھی گزشتہ دو سال سے کوشش کررہے ہیں کہ یہاں آنے والے افغان صحافیوں اور اہل فن کے ویزوں میں توسیع کراسکیں لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے۔
یقیناً پاکستانی حکام کی ہمدردی ساتویں اور آٹھویں کیٹیگری کے افغانوں کے ساتھ ہوگی اور انہیں زیادہ غصہ چھٹی قسم کے افغانوں پر ہوگا لیکن گزشتہ دوسال کے دوران پاکستانی حکومت کی غفلت کی وجہ سے زیادہ تر غیرقانونی مہاجرین ساتویں اور آٹھویں کیٹیگری کے مہاجر ہیں لیکن چھٹی کیٹیگری (طالبان اور ان کے حامیوں) کے افغان یا تو پاکستانی دستاویزات بنا کر پاکستانی بن چکے ہیں یا پھر انہوں نے کمپیوٹرائزڈ مہاجر کارڈ لئے ہیں یا پھر ان کے پاس لمبی مدت کے ویزے ہیں ۔وہ اگر پولیس کے ہاتھ آئیں گے تو پاکستانی شہریت کی دستاویزات دکھائیں گے یا پھر لمبی مدت کے ویزے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار سے زائد طالبان پاکستانی دستاویزات حاصل کرچکے ہیں اور امارات اسلامی کی کابینہ میں بیٹھے بعض لوگوں کے پاس بھی پاکستانی دستاویزات ہیں، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ملا اختر منصور جب ایران سے پاکستان آتے ہوئے بلوچستان میں امریکی ڈرون کا نشانہ بنے تو ان کے پاس پاکستان کا کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ تھا۔ سوال یہ ہے کہ مہاجرین سے متعلق اس اقدام سے قبل کیا ان کمپیوٹرائزڈ دستاویزات کو کینسل کیا گیا ہے یا نہیں؟ ۔ اگر غیرقانونی طور پر بنائے گئے شناختی کارڈ کینسل کئے گئے ہیں تو کیا تمام تھانوں کو ان کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں؟۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہماری ہمدردی کے زیادہ مستحق گزشتہ دو سال میں گھربار چھوڑ کر پاکستان آنے والے یا پھر یہاں عارضی طور پر پارک ہوکر امریکہ اور مغربی ممالک میں جانے کے منتظر افغان ہونے چاہئیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایک عام پولیس اہلکار یہ تفریق کیسے کرسکے گا؟۔ وفاقی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کی طرف سے بار بار پولیس کو ہدایت کی جارہی ہے کہ وہ قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو تنگ نہ کریں لیکن ایک سوال یہ ہے کہ غیرقانونی طور پر قانونی دستاویزات بنانے والوں کا کیا ہوگا اور دوسرا سوال یہ کہ پولیس صوبوں کے زیرانتظام ہے تو وفاقی حکومت کس طرح یقینی بنارہی ہے کہ صوبوں میں افغانوں کو رشوت کیلئے تنگ نہیں کیا جارہا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔