08 نومبر ، 2023
ورلڈکپ کے لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم منتخب کرنے والے سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے چیئرمین منیجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف اور کرکٹ بورڈ دونوں کو نشانے پر لے لیا۔
کچھ روز قبل انضمام الحق کا ایک کمپنی کے ساتھ شیئر ہولڈر ہونےکا معاملہ سامنے آیا تھا تاہم انضمام الحق کمیٹی کی تشکیل سے پہلے ہی چیف سلیکٹر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
بعد ازاں پی سی بی نے ٹیم کے انتخاب کے عمل اور مفادات کےٹکراؤ کے حوالے سے 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد بدھ کو جیونیوز کے پروگرام کیپٹیل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے کہا کہ ورلڈ کپ کے دوران الزامات تو لگا دیے گئے لیکن بورڈ اب انکوائری کے لیے نہیں بلا رہا ، نہ رابطہ کر رہا ہے اور نہ ای میلز کا جواب دے رہا ہے ، نہ بورڈ یہ بتا رہا ہے کہ کس چیز کی انکوائری ہو رہی ہے، استعفیٰ منظور نہ ہونے کا بھی ٹی وی سے علم ہوا۔
سابق چیف سلیکٹر نے ذکا اشرف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیئرمین بورڈ 4 ماہ کے لیے آئے تھے، اب مزید 3 ماہ توسیع ملی ہے، توسیع لے رہے ہوتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ اپنی چیزیں دوسروں پرڈال دیں، انسان بچنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ میری غلطی نہیں اس کی ہے۔
انضمام الحق نے کہا کہ کرکٹ بورڈ نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی اس کے بعد میں نے استعفیٰ دیا تھا، ورلڈکپ میں کارکردگی خراب ہوتی ہے تو نان پلیئر ٹیم پر ملبہ ڈال کر خود سائیڈ ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سایا کارپوریشن پلیئرز کے معاملات کو دیکھتی ہے، وہ میرے معاملات کو بھی دیکھتی ہے، سایا کارپوریشن آئی سی سی سے منظور شدہ ہے، یہ ٹیکس پیئر کمپنی ہے، سارا ریکارڈ موجود ہے۔
انضمام الحق نے بتایا کہ یازو کمپنی 2000 میں ہم نے بنائی تھی، بچوں کے سائیکل کے ہیلمٹ کے لیے، یازو میں ہماری کوئی ٹرانزیکشن شروع ہی نہیں ہوئی، سینٹرل کنٹریکٹ جون میں ہوتا ہے، میں نویں مہینےمیں آیا، چیئرمین نے کہا کہ انضمام سے کہیں وہ مسئلہ حل کرادیں گے، جس دن ٹیم ورلڈ کپ کے لیے جا رہی تھی اس دن رات 10 بجے مسئلہ فائنلائز ہوا، وہاں بابراعظم،چیئرمین پی سی بی،چیف ایگزیکٹو، اکاؤنٹس کے لوگ تھے، جو مسئلہ تین چار مہینے سے حل نہیں ہو رہا تھا وہ میں نے حل کرا دیا اور بعد میں میرے اوپر الزامات لگا دیے گئے۔
سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے کہا کہ مفادات کا ٹکراؤ اس لیےکہہ رہے ہیں کہ یازو کمپنی کے میں،رضوان،طلحہ ڈائرکٹر ہیں، میں نے چیئرمین سے کہا کہ ہماری کمپنی میں کوئی ٹرانزیکشن ہی نہیں ہوئی، چیئرمین نے بیان دے کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی، میں بورڈ کا ملازم تھا،مجھ سے پوچھتے کہ یہ چیزیں آرہی ہیں یہ کیا ہیں؟ نہ مجھ سے پوچھا گیا نہ طلحہ رحمانی سے پوچھا گیا، الزام لگایا کہ انضمام نے بلیک میل کیا کہ کنٹریکٹ کے بغیر ٹیم ورلڈکپ میں نہیں جائے گی، میں نے چیئرمین سے کہا کہ اس کی تردید کر دیں،سب کچھ آپ کے سامنے ہوا ہے، چیئرمین نے کہا کہ تردید نہیں کرسکتے،آپ پرفائنڈنگ کمیٹی بنے گی، میں نے کہا کہ فائنڈنگ کمیٹی بنانی ہے تو میں استعفیٰ دے دیتا ہوں، تحقیقات کرائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ذکا اشرف بہترین کاروباری اور سیاست دان ہوں گے لیکن ان کا کرکٹ سے تعلق نہیں رہا، کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننے کی سب کی خواہش ہوتی ہے، چیئرمین کو سفارشیں بھی آتی ہوں گی۔
انضمام الحق نے امام الحق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امام الحق تین چار سال سے کھیل رہا ہے تب تو میں چیف سلیکٹر نہیں تھا ، میرے چیف سلیکٹر بننے سے امام الحق کا کوئی تعلق نہیں، میں پچھلے 35 سال سے کرکٹ سے تعلق ہے، میں نے 1991 میں ڈیبیو کیا، میرا کیریکٹر لوگ جانتے ہیں، کوئی تین چار مہینے کے لیے آکر مجھے میرا کیریکٹر بتائےگا؟
انضمام نے کہا کہ دوبارہ ذمہ داری سنبھالنے کا کہیں تو مجھے نہیں ماننا چاہیے، ٹیم وطن واپس آئے گی تو جو فیصلہ کرنا ہے کرلیں، میں بھی الزامات لگا سکتا تھا کہ بابر نے یہ غلطی کی، ٹیکنیکل کمیٹی کے اجلاس میں ٹیم کے کوچنگ اسٹاف پر بات ہوئی تھی، فیصلہ ہوا تھا کہ کوچنگ اسٹاف کا فیصلہ آسٹریلیا ٹور کے بعد کریں گے۔
انضمام الحق نے مزید کہا کہ ٹیم برا کھیلتی ہے تو میں ذمہ داری لینے کو تیار ہوں، بچنے کو نہیں، ایک بیان آیا کہ تمام ذمہ داری انضمام اور بابر کو دی گئی تھی،ا گر لڑکوں کو یہ پیغام جاتا کہ چیف سلیکٹر بھی ہمارا ہے، ٹیم اور کپتان بھی ہمارا ہے تو ان کے دل بڑے ہوجاتے۔
اس سے قبل چیف سلیکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے انضمام الحق کا کہنا تھا کہ لوگ بغیر تحقیق کے باتیں کرتے ہیں، مجھ پر سوال اٹھے تو استعفیٰ دینا بہتر سمجھا، پاکستان کرکٹ بورڈ انکوائری کرے میں دستیاب ہوں، بغیر تحقیق کے باتیں کر رہے ہیں جس نے بھی کہا ثبوت دیں، جو بھی مجھ پر الزام لگے ثبوت بھی دینا چاہیے۔
انضمام الحق کا کہنا تھا کہ میرا پلیئرز ایجنٹ کمپنی سے کسی قسم کا تعلق نہیں، اس طرح کے الزامات سے دکھ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ مجھ پر الزامات لگنے پر میں نے بورڈ سے بات کی تھی، بورڈ کوکہا کہ آپ کو کوئی شک ہے تو انکوائری کرلیں، مجھے فون آیا اور بتایا گیا کہ 5 لوگوں کی کمیٹی بنائی گئی ہے، اس پر بورڈ کو کہا جب تک کمیٹی تحقیقات کرلے عہدہ چھوڑ دیتا ہوں