سرکاری دستاویزات، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکن وزیراعظم کے اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں کہ آج تک بلوچستان سے طلبہ کی جبری گمشدگی کا کوئی کیس درج نہیں ہوا۔
14 نومبر ، 2023
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک حالیہ ٹیلی ویژن انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ آج تک صوبہ بلوچستان سے کوئی بھی طالب علم ”جبری گمشدگی“ کا شکار نہیں ہوا۔
یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔
3 نومبر کو ڈان نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عبوری وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ملک میں جبری گمشدگیوں(Enforced disappearances) کے کیسز کے بارے میں پوچھا گیا کہ جہاں ریاستی اہلکار وں کے ذریعے کسی شخص کو گرفتار کیا جاتا ہے، حراست میں لیا جاتا ہے یا اغوا کیا جاتا ہے اور لاپتہ شخص کے ٹھکانے کو بعد میں ریاست چھپاتی ہے۔
سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ”Right of apprehension“ اور”Enforced disappearances“ میں فرق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ' آپ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے آپ کو درست الزام میں اور غلط الزام میں apprehend کر سکتے ہیں کیونکہ Right of apprehension کسی بھی ریاست کا Inherent right ہے'۔
نگران وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے جب 10 یا 12 دنوں کے لیے کسی apprehension کو ڈاکومنٹ کر رہے ہوتے ہیں تو اس دوران لاپتہ فرد مجسٹریٹ کے سامنے آ جاتا ہے یا پھر تھوڑا وقت لگ جاتا ہے، لیکن یہ ہوتی تو apprehension ہی ہے مگر اس کو وہ دوسری کیٹیگری میں ڈال دیتے ہیں۔
جب پروگرام میزبان نے وزیر اعظم پر بلوچستان سے طلبہ کی جبری گمشدگیوں کے بارے میں زور دیا تو انوارالحق کاکڑ نے دعویٰ کیا کہ'بلوچ اسٹوڈنٹس میں سے کسی کو enforced disappear نہیں کیا گیا، دیکھیں میں آپ کو پھر دوبارہ عرض کروں کہ right of apprehension اور enforced disappearance میں ہمیں تفریق رکھنی چاہیے'۔
نگران وزیر اعظم نے کہا کہ'بہت ساری جگہوں پر اگر یہ لڑکے کسی بھی الزام میں کہیں بھی گرفتار ہوئے ہیں وہ اگر appear ہوئے ہیں تو انہیں ہم enforced disappearance کی کیٹیگری میں نہیں رکھیں گے'۔
سرکاری دستاویزات، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکن وزیراعظم کے اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں کہ آج تک بلوچستان سے طلبہ کی جبری گمشدگی کا کوئی کیس درج نہیں ہوا۔
یہاں تک کہ جبری گمشدگیوں پر حکومتی انکوائری کمیشن نے اپریل 2022 ء سے مئی 2023 ءکے درمیان صوبہ بلوچستان سے کم از کم پانچ طلبہ کی جبری گمشدگی کو ریکارڈ کیا ہے۔
حکومتی کمیشن کے سیکرٹری فرید احمد خان کی جانب سے موصول شدہ ڈیٹا کے مطابق ایک طالب علم 5 اپریل 2022ءکو ، دو طلبہ 3 اگست 2023ء کو ، ایک اور طالب علم 5 مئی 2023ءکو جبکہ ایک طالب علم 25 مئی 2023ء کو لاپتہ ہوا۔
تاہم، فرید خان نے مزید کہا کہ کمیشن عام طور پر جبری گمشدگیوں کے کیسز کی درجہ بندی پیشے کے لحاظ سے نہیں کرتا، جس کی وجہ سے یہ شمار کرنا مشکل ہے کہ لاپتہ ہونے والوں میں سے کتنے طالب علم تھے۔
مجموعی طور پر، کمیشن کو مارچ 2011 ء سے ستمبر 2023 ء تک'جبری گمشدگی' کے 10 ہزار 14 کیسز موصول ہوئے، جن میں سے 2 ہزار 7 سو 32 صرف بلوچستان سے رپورٹ ہوئے۔
تاہم، انسانی حقوق کے کارکنوں اور بلوچ طلبہ کی طرف سے جبری گمشدگیوں کے بارے میں جو ڈیٹا مرتب کیا گیا ہے وہ سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔
10 اکتوبر 2022 ءکو بلوچ طلبہ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم کردہ بلوچ اسٹوڈنٹس کمیشن کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان اور طلبہ نے گزشتہ سال تک بلوچستان سے طلبہ کی جبری گمشدگی کے کم از کم 69 کیسز کو دستاویزی شکل دی تھی۔
خط میں کہا گیا کہ 69 کیسز کے علاوہ 3 بلوچ طلبہ جو لاپتہ ہوئے تھے بعد میں مردہ پائے گئے۔
”Right of apprehension“ کیا ہے؟
وفاقی دارالحکومت میں موجود وکیل ایمان زینب مزاری حاضر نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی ”Right of apprehension“کی اصطلاح نہیں سنی جس کو نگران وزیر اعظم نے استعمال کیا ہے۔
انہوں نے ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ'جبری گمشدگی کسی کو قانون کے دائرے سے باہر لے جا نا ہے کیونکہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا ہے اور کسی کو ان کی قسمت اور ان کے ٹھکانے کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا ہے، قانونی طور پر ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ”Right of apprehension“کو تسلیم کرتی ہو'۔
جبکہ سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جیو فیکٹ چیک کو میسجز کے ذریعے بتایا کہ'قانونی گرفتاری کے لیے ضروری ہے کہ کسی شخص کو گرفتاری کے 48 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کیا جائے'۔انہوں نے مزید کہا کہ ’دیگر تمام صورتیں [کسی شخص کو حراست میں رکھنے وغیرہ] غیر قانونی ہیں'۔
جیو فیکٹ چیک کو بھی”Right of apprehension“ کی اصطلاح کی کوئی قومی یا بین الاقوامی تعریف نہیں ملی۔
Enforced disappearance کیا ہے؟
جبری گمشدگیوں پر پاکستان کے سرکاری انکوائری کمیشن کے مطابق جبری گمشدگی یا لاپتہ شخص کی تعریف یہ ہے کہ 'ایسا شخص جسے کسی بھی قانون نافذ کرنے والے/خفیہ ایجنسی نے سویلین یا فوجی کنٹرول میں کام کرنے والے، اس طریقے سے اٹھایا/حراست میں لیا ہو جو قانون کی دفعات کے خلاف ہو'۔
جب کہ اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ آن فورسڈ یا غیر رضاکارانہ گمشدگیوں کے مطابق جبری گمشدگیوں کی تعریف'ریاستی اہلکاروں یا افراد یا افراد کے گروہوں کے ذریعے جو اجازت، حمایت یا مدد کے ساتھ کام کرنے والے افراد کے ذریعے گرفتاری، حراست، اغوا یا آزادی سے محرومی کی کسی دوسری شکل کے طور پر کرتا ہے، ریاست کی رضامندی، اس کے بعد آزادی سے محرومی کو تسلیم کرنے سے انکار یا گمشدہ شخص کی قسمت یا ٹھکانے کو چھپانے سے، جو ایسے شخص کو قانون کے تحفظ سے باہر رکھتا ہے'۔
اضافی رپورٹنگ: ثمن امجد
ہمیںGeoFactCheck @پر فالو کریں۔
اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے
رابطہ کریں۔