16 نومبر ، 2023
پاکستان میں تو موسم بتدریج سرد ہو رہا ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کے سرد ترین رہائشی مقام پر آج کل کیا درجہ حرارت ہے؟
یقین کرنا مشکل ہوگا مگر دنیا کے سرد ترین رہائشی مقام میں آج کل درجہ حرارت منفی 30 سینٹی گریڈ سے بھی نیچے ہے۔
یہ مقام روس کے خطے سائبریا میں واقع قصبہ اویمیا کون ہے۔
اس قصبے میں 500 افراد مقیم ہیں اور 1924 میں وہاں منفی 71.2 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا، مگر یہ غیر مصدقہ ہے۔
مصدقہ طور پر یہاں سب سے کم درجہ حرارت 1933 میں منفی 67.7 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔
یہاں موسم سرما میں اوسط درجہ حرارت منفی 58 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اسے دنیا کا سرد ترین رہائشی مقام بھی قرار دیا جاتا ہے۔
یہ قصبہ یاکوتسک نامی شہر سے 577 میل دور واقع ہے۔
یاکوتسک کو دنیا کا سرد ترین شہر قرار دیا جاتا ہے، جہاں سے ایک ہی سڑک اویمیاکون تک لے جاتی ہے۔
اویمیا کون کا مطلب کبھی جمنے نہ والا پانی ہے جو وہاں قریب موجود ایک گرم چشمے کے اوپر رکھا گیا ہے۔
زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ نام کے برعکس عموماً موسم سرما میں وہاں بہتا ہوا پانی کہیں نظر نہیں آتا۔
یہاں سردی کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو منجمد گوشت کھانا پڑتا ہے اور گھر سے باہر موجود گاڑیوں کو 24 گھنٹے چلائے رکھنا ہوتا ہے، کیونکہ بند کرنے پر انہیں دوبارہ چلانا ممکن نہیں ہوتا۔
جب کسی فرد کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی تدفین کے لیے کئی دن تک زمین پر آگ جلائی جاتی ہے تاکہ اس کو کھودنا ممکن ہوسکے۔
یہ قصبہ آرکٹک سرکل سے چند سو میل دور ہے اور اسی وجہ سے موسم سرما میں یہاں 21 گھنٹے تک تاریکی چھائی رہتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ 24 گھنٹے میں 3 گھنٹے ہی کسی حد تک دن کی روشنی نظر آتی ہے، مگر سورج بہت کم نظر آتا ہے۔
اتنے سرد موسم میں لوگوں کو خود کو زندہ رکھنے کے لیے متعدد طریقے اپنانے پڑتے ہیں۔
گھروں میں ٹوائلٹ نہیں ہوتے بلکہ انہیں باہر تعمیر کیا جاتا ہے کیونکہ سرد موسم کے باعث پائپ منجمد ہو کر پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
یہاں کی منجمد سرزمین پر فصلیں اگانا ممکن نہیں تو لوگوں کو قطبی ہرن کے گوشت، منجمد مچھلیوں کے کچے گوشت اور گھوڑے کے خون سے تیار آئس کیوبس کو غذا کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے۔
جب کوئی فرد گھر سے باہر نکلتا ہے تو کہیں رکنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں بلکہ جتنی تیزی سے ہو سکے چلتا ہے تاکہ جسمانی درجہ حرارت بہت زیادہ کم نہ ہوجائے۔
درحقیقت گھر سے باہر نکلتے ہی پلکوں پر برف جم جاتی ہے اور کچھ سال پہلے تو وہاں سردی کی شدت سے الیکٹرونک تھرما میٹر بھی پھٹ گیا تھا۔
اگر کوئی فرد چشمہ پہن کر باہر نکلے تو خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے چہرے پر ہی نہ چپک جائے۔
یہ قصبہ 1920 کی دہائی میں بنا تھا، اس سے قبل یہاں موسم سرما میں خانہ بدوش قیام کے لیے آتے تھے تاکہ ان کے قطبی ہرنوں کو گرم چشمے سے پانی ملتا رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موسم گرما میں یہاں درجہ حرارت کئی بار 35 ڈگری سینٹی گریڈ کو بھی چھو لیتا ہے۔
کچھ سال پہلے ایک فوٹو گرافر Amos Chapple وہاں گئے تو انہوں نے موسم سرما میں لوگوں کی زندگی کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ موسم سرما میں اس خطے پر طیارے کی پرواز ممکن نہیں ہوتی اور گاڑیوں سے ہی سفر ممکن ہوتا ہے۔
چونکہ یہاں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے تو گھروں کو ایسے تعمیر کیا جاتا ہے کہ وہ موسم کی شدت کو برداشت کرسکیں۔
ان سب حالات کے باوجود وہاں کئی اسکول موجود ہیں جبکہ ایک پوسٹ آفس، بینک اور ایک ائیر پورٹ رن وے بھی موجود ہے۔
تو یہاں اتنی زیادہ سردی کیوں ہوتی ہے اور لوگ کیوں اتنے سخت ماحول میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں؟
ماہرین کے مطابق سائبریا کا خطہ بہت وسیع و عریض ہے اور سطح سمندر سے کافی بلند ہے اور ان دونوں کے امتزاج کے باعث وہاں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اویمیا کون ایک وادی کے درمیان واقع ہے اور اس کے اردگرد اونچی پہاڑیاں ہیں تو بھاری سرد ہوا وادی کی سطح کے قریب 'پھنس' جاتی ہے، جس کا نتیجہ درجہ حرارت میں ریکارڈ کمی کی شکل میں نکلتا ہے۔
تو پھر اتنے سخت موسم کے باوجود لوگ وہاں کیوں رہائش پذیر ہیں؟
ماہرین کے خیال میں وہاں رہنے والے افراد کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ کس جگہ مقیم ہیں اور کس طرح کامیابی سے اتنے سخت مقام پر بھی معمولات زندگی جاری رکھے ہوئے ہیں۔