’’مختصر قصہ غم کہ دل رکھتا ہوں‘‘

’اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘ ، وطنی سیاسی دگرگوں حالات سے توجہ کیسے ہٹائوں ؟ وطنِ عزیز کا نظام’’ٹائم بم‘‘ کی زد میں ایسے کہ ٹِک ٹِک سے دل کی دھڑکنیں بے قابو ۔ کچھ عرصہ سے تین بڑے اسٹیک ہولڈرز اپنے آپکو پاکستان کا جزو لاینفک سمجھ چُکے۔ تینوں میں مشترک ایک ہی رٹ،’’ ہم نہیں تو پاکستان نہیں‘‘۔ 

ایک اسٹیک ہولڈر عمران خان ، یہ دن دیکھنا تھا ،بلاشرکت غیرے ملکی سیاست کا محور بن چُکاہے ۔ متحرک رائے عامہ اسکے سحر میں مبتلا ، وطنی طول و عرض عمران خان کواجتماعی اوڑھنا بچھونا بنا چُکے ، ہمارے گناہوں پر اللہ کی پکڑ ہے ۔ جنرل باجوہ ، جنرل فیض حمید ، ثاقب نثار اَن گنت قومی جرائم میں عمران خان اُنکے شانہ بشانہ ملوث ، ’’پروجیکٹ عمران خان‘‘، مملکت خداداد کیساتھ ایسوں کا ایسا’’جبری گناہ‘‘،کہ مملکت کو دلدل میں دھکیل دیا۔ 

عمران خان کے’’تصور سیاست‘‘ سے جس فساد ، فتنہ اور افراتفری نے وطن ِ عزیز کو آماجگاہ بنالیا ہے ۔ اسکا سدِ باب ہوا نہ ہی عنقریب ہونے کا امکان ہے ۔ آج مملکت آتش فشاں کے دہانے پر ، بچنے بچانےکیلئے انتظام و انصرام ، بندوبست کیا ہو پاتا ،ادراک ہی نہیں ۔ مملکت میں راوی چین لکھ رہا ہے ، سب اچھا کی رپورٹ ہے ۔ معاملات جس یکسوئی اور’’خوش اسلوبی‘‘سے خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کیا بدقسمت 1971 اپنے آپکو دُہرانے کو ہے؟

میاں محمد نواز شریف کو قدم رنجہ فرمائے چارہفتے ہونے کو ، آمد سے چند دن پہلے سے پلک جھپکتے معاملات کا ڈگر پر آنا ، دیوار پر کندہ تھا ۔لمحہ فکریہ، ایک غیر معمولی جلسہ دو تین ہفتوں اندر ، گلیوں بازاروں میںزیر بحث نہ رہے ۔ لوگ عمران خان اور وطنی سیاست کے مستقبل بارے بحث وتمحیص میں اُلجھ جائیں ، کوئی اچھا شگون نہیں ہے ۔ زمینی حقیقت ، وطنی سیاست کامستقبل عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی دھینگا مشتی کے نتائج سے نتھی ہے ۔ جب تک چاروں شانے چت رہنے کا فیصلہ نہ ہوا، ڈانوا ں ڈول رہنا ہے۔

 عمران خان بارے قیاس آرائیاں ، فی الحال روزانہ کی بنیاد پر اُسکو جیل میں رکھنے کی ترکیبیں ، ضمانت ہونا نہ ہونا ،’’موقف ہے عدالتی رونق‘‘ ۔کیا اسٹیبلشمنٹ موجودہ تنازع میں مروجہ آئین اور قانون کیمطابق اپنے لیے’’ انصاف‘‘لے پائی ہے ۔ سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ تو اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا نہیں سکا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں عملداری لمحوں میں ہو ئی کہ سویلین ادارہ تھا۔ فیصلہ نافذالعمل نہیں ہو سکا کہ اسٹیبلشمنٹ شاید وطنی آئین اور قانون کی عملداری میں متذبذب ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملزمان کو عسکری تحویل میں رکھنا، مملکت کے اندر آئین اور قانون کی عملداری کی صریحاً نفی ہے اور ریاست کیلئے کسی طور فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سپریم کورٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی باہمی کشمکش ملکی سیاسی بحران پر علیحدہ اثرات ڈالتے ہیں۔

جو کچھ ہو چکا ہے ، ہو رہا ہے ، ہونے کو ہے ، اسکا لب لباب اتنا، اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عمران خان پچھلے پونے دو سال سے خم ٹھونک کر ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہیں۔ قطع نظر پچھلی دہائی سے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں برابر کے شریک رہے ۔ مہرہ بن کر وزیراعظم بنے تو رفعتیں پائیں ۔ ساڑھے تین سال اس تعلقِ خاطر پہ رعونت سے اِتراتے پھرے ۔ مخالفین کا جینا اجیرن رکھا ۔ جیسے ہی اقتدار سے علیحدہ ہوئے ، اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہہ کر عوام الناس میں پہلی دفعہ غیر معمولی پذیرائی پائی ۔ اس سارے عمل کی اصل ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ قیادت ہی تھی کہ جوڑ توڑ کے کھیل میں مملکتِ خدادا د کو ویڈیو گیم بنائے رکھا۔ آج دونوں فریق اپنی اپنی طاقت کے زعم میں ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کمر بستہ ہیں ۔ دونوں میں سے ایک کا وجود تحلیل ہوئے بغیر مملکت دوراہے پر رہنی ہے ۔ بحران سے نکل نہیں پائے گی ۔ عمران خان کو’’رائے عامہ‘‘ پر بھروسہ جبکہ اسٹیبلشمنٹ ریاستی طاقت، فائر پاور اور فائٹر فورس سے بھر پور ۔ کیا اگلے دو ماہ میں عمران خان کا مکو ٹھپ دیا جائے گا ؟ خاطر جمع رکھیں، 14سال یا 24 سال جیل عمران خان کا بال بیکا بھی نہیں کر پائے گی ۔ نہ ہی جیل کی قید و بند نے کبھی کسی لیڈر کو قصہ پارینہ بنایا ۔وطنی جیل سیاستدانوں کے وارے میں ہے۔ انگریز بہادر اس لیے ہی تو ملک بدر اور کالا پانی کو ترجیح دیتا تھا ۔ نواز شریف کی مثال سامنے کس شد ومد کیساتھ باہر بھجوایا گیا تھا ۔گو’’مکو ٹھپنے‘‘کے علاوہ آپشن نہیں۔

’’منصوبہ عمران خان مکاؤ‘‘کا آغاز شدت سے جاری ہے ۔ بظاہر میاں نواز شریف آتے ہی بطور نامزد وزیراعظم اپنی ACTIVITIES کا آغاز کر چکے ہیں ۔ پچھلے ایک سال سے اسٹیبلشمنٹ نے جو کچھ بنایا اسکے ثمرات دن دہاڑے سمیٹنےکیلئے میاں صاحب مستعد ہیں ، انہیں ثمرات سے نوازا جارہا ہے۔ جس طرح’’پروجیکٹ عمران خان ‘‘ کی ترتیب تخلیق و تشکیل اور کامیابی سے ہمکنار کرتے وقت جس طرح ایسے سارے مراحل طے ہوئے۔ماضی دُہرانے کو ،بلوچستان سیاست پکے پکائے پھل کی طرح میاں صاحب کی گود میں ، سندھ، چترال تا گلگت بلتستان بشمول کشمیر چھوٹے بڑے سیاسی گروپ بھی’’ چشم ماروشن دل ماشاد‘‘۔ جنوبی پنجاب کی سیاست گھر کی باندی رہنی ہے ۔ عمران خان کا صفحہ آج نواز شریف کے قبضہ میں ہے ۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟ حالیہ تاریخ من و عن اپنے آپ کو دُہرانے کو ۔ بالکل اسی طریقہ سے آج میاں صاحب نے اقتدار تک پہنچنا ہے ۔

چند باتیں ایسی بھی جو مماثلت نہیں رکھتیں ۔ 2018 میں سیاست کا محور نواز شریف ضرور ، سیاسی میدان میں بظاہر مقابلہ عمران خان سے تھا۔ آج عمران خان کا کُلی مقابلہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ نواز شریف اس وقت تک موثر نہیں ہو پائیں گے جب تک عمران خان بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کسی منطقی انجام تک نہ پہنچے۔ پہلے اسکا فیصلہ ہوگا تو نواز شریف کی عوامی سیاست کا تعین ہو گا۔ بہت سارے زمینی حقائق تبدیل ،آج کی عدالتیں شاید اسٹیبلشمنٹ کو ماضی کی طرح فری ہینڈ نہ دیں۔ دوسری طرف عمران خان کی سیاسی حمایت غیر معمولی متحرک اور موثر سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کو بھر پور استعمال کر رہی ہے جسکا حل نہ کوئی توڑ ۔ جبکہ نواز شریف کو 2014 سے 2022 تک یکطرفہ معاندانہ میڈیا کا سامنا رہا ۔ اگر زور زبردستی چند ماہ میں نواز شریف کو اقتدار پر بٹھا بھی دیا گیا تو اس دفعہ کا نواز شریف ، پہلے کی نسبت انتہائی کمزور وزیر اعظم بن کر آئے گا ۔ بننا چاہیے یا نہیں اسکا جائزہ انکو خود لینا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔