20 نومبر ، 2023
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں جیل ٹرائل پر حکم امتناع میں مزید ایک دن کی توسیع کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پرمشتمل بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسلام آباد میں سیکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں، حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیا۔
عدالت نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات عدالت کے سامنے رکھیں جس کے مطابق جج کی تعیناتی کا عمل ہائیکورٹ سے شروع ہوا، کیس کے جیل ٹرائل سے متعلق اختیارعدلیہ کے پاس ہے، ایگزیکٹونے اس پرعمل کیلئے انتظامات کرنا ہوتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات دکھائیں جس میں اسپیشل رپورٹس بھی ہیں، سی سی پی او کا لیٹر بھی ان دستاویزات کا حصہ ہے، سکیورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا، نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ کا ذکربھی موجود نہیں،نہ ہی وزارت داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر ہے، حکومت جیل ٹرائل کیلئے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے۔
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جیل ٹرائل کی درخواست آئے تو عدالت نوٹس کرکے دوسرے فریق کوسننے کے بعد فیصلہ کرسکتی ہے، جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے، ٹرائل کورٹ کے جج نے خط لکھ کر پوچھا کہ ملزم کو پیش کرنے میں کوئی مشکلات تونہیں؟ جج اس خط کے ذریعے پوچھ رہاتھاکہ آپ مناسب سمجھیں توجیل ٹرائل کیلئے تیارہوں، جج نے دراصل کہا کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا، یہ سزائے موت یا عمرقید کا کیس ہے، اس میں سختی سے قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔
وکیل نے مزید کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کو ہدایات دی گئیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا نام نہیں چلانا، جیل ٹرائل کا واحد مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو منظرسے غائب کرنا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل فیملی اورپبلک کو دور رکھنے کیلئے ہی کیا جارہا ہے، میڈیا، فیملی اورپبلک کو ٹرائل سے دور رکھنا محض بےضابطگی نہیں، بغیردستاویزات فراہم کیے فرد جرم عائد کی گئی، اسے بھی معمولی بے ضابطگی نہیں کہہ سکتے، استدعا ہے کہ پہلے ہوا ٹرائل کالعدم قرار دیا جائے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ پٹیشنر کو بہرحال سکیورٹی تھریٹس تو ہیں۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا سائفرکیس کا ٹرائل23 اکتوبرکو فرد جرم عائد ہونے سے شروع ہوا، اس سے پہلے کی تمام عدالتی کاروائی پری ٹرائل پروسیڈنگ تھی۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ جج نے سکیورٹی خدشات کے حوالے سے جو خط لکھا ان کے پاس کیا معلومات تھیں؟ کیا اسپیشل رپورٹس ان کے ساتھ شیئرکی گئی تھیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ یہ بات عمومی طورپرپبلک ڈومین میں تھی اورعدالت کو بھی اس کا علم تھا، ریمانڈ کے لیے بھی جج کو جیل جانا پڑا تو انہیں اس بات کا احساس تھا۔
اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ سنگل بینچ نے اتنے اہم کیس میں طویل عرصہ فیصلہ محفوظ رکھا، ہم فیصلے کا انتظار کرتے رہے، اس دوران مزید نوٹیفکیشنز جاری ہوئے، ٹرائل کورٹ جج نے کہا کہ حکم امتناع نہیں اس لیے وہ کاروائی جاری رکھیں گے، ہر سماعت پر 3 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ہمیں ابھی تک نہیں پتہ کہ اس کیس میں چارج کیا ہے؟ ہم صرف جیل میں ٹرائل اورجج کی تعیناتی کے معاملے پرقانونی نکات دیکھ رہے ہیں، پبلک کوعدالتی کارروائی سے باہر رکھنے کا اختیار متعلقہ جج کا ہے، اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں کہ جج کی طرف سے پبلک کوباہر رکھنے کا کوئی آرڈرموجود نہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق ایسا آرڈرنہ ہونے کے باعث اسے اوپن ٹرائل تصورکیا جائے۔
عدالت نے خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن اور چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی خدشات سے متعلق رپورٹ طلب کر لی اور جیل ٹرائل پر حکم امتناع میں مزید ایک دن کی توسیع کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔