بلاگ
Time 28 نومبر ، 2023

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج کیا واقعی مریم نواز کے سر سجےگا؟

ایسا ہوگیا تو اچھنبے کی بات نہیں ہوگی کیونکہ یہ وہی عہدہ ہے جس پر شریف خاندان میں سب سے پہلے میاں نوازشریف برسراقتدار آئے تھے۔1985 سے 1990 کے دوران وہ دوبار وزیراعلیٰ پنجاب رہے اورجب وزارت عظمیٰ سنبھالی تو یہ عہدہ میاں شہباز شریف کے حصے میں آیا تھا۔

میاں نوازشریف کی گُڈویل ہی تھی جس پر شہبازشریف کو تین بار وزارت اعلیٰ سنبھالنے کا موقع ملا، اس میں شک نہیں کہ شہبازشریف نے لاہور سمیت پنجاب بھر میں ترقیاتی کاموں کے ذریعے اپنی ساکھ بنائی مگر ن لیگ کو نوازشریف ہی کے نام پر ووٹ ملتا ہے۔ایسا نہ ہوتا تو میاں نوازشریف کی وطن واپسی کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

پاکستان میں خاندانی سیاست اور عہدوں پر موروثیت کے اثرات کو کتنا ہی تنقید کا نشانہ بنایا جائے مگر بعض تلخ تجربات کے سبب یہاں سیاسی رہنما اہم ترین عہدوں پر اپنے عزیزوں یا انتہا سے زیادہ قابل اعتماد ساتھیوں ہی کو نوازتے رہے ہیں۔

اتحادی حکومت میں میاں شہبازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ حمزہ شہباز کو سونپا جانا اس کی واضح مثال ہے۔یہ وہ وقت تھا جب ن لیگ وزیراعلیٰ کسی اور پارٹی رہنما کو بھی بنا سکتی تھی مگر باپ وزیراعظم بنا تو بیٹا ہی وزارت اعلیٰ کے تخت پر بٹھایا گیا۔

سروے کی بنیاد پر ن لیگ کو یقین ہے کہ اس بار میاں نوازشریف پانچویں بار وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوجائیں گے۔یہی نہیں پنجاب میں بھی ن لیگ ہی کی حکمرانی ہوگی۔

ایسا ہوا تو قوی امکان ہے کہ شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں ہوں گے، ویسے بھی نوازشریف کی چوتھی وزارت عظمیٰ کے دور میں شہبازشریف مرکز میں آنا چاہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ سونپی جاسکتی تھی جبکہ مریم نواز اس عہدے کے لیے تیار نہیں تھیں۔

اس بار صورتحال مختلف ہے۔عمرانی دور میں مریم نواز نے جس طرح پارٹی کو فعال رکھا ہے، اسے حریف بھی تسلیم کرتے ہیں۔

میاں نوازشریف کے لندن میں قیام کے دوران مریم نواز نے جس طرح ملک کے مختلف حصوں خصوصاً پنجاب میں پُرجوش جلسے کیے ہیں، ان سے یہ واضح ہے کہ حمزہ شہباز کے مقابلے میں مریم نواز نے اپنی جگہ بنالی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نوازشریف نہ صرف ہر قدم پر مریم نواز کو ساتھ رکھے ہوئے ہیں بلکہ پارٹی کی باگ ڈور بھی عملی طورپر انہی کو سونپی ہوئی ہے۔

سال کے آغاز پر مریم نواز کو سینیئر نائب صدر بنایا گیا اور پھر پارٹی کا چیف آرگنائزز بنا کر ن لیگ کو ازسرنو منظم کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا تھا۔

اس میں شک نہیں کہ جیسے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ آصف زرداری کریں گے، اسی طرح ن لیگیوں کو انتخابی ٹکٹ میاں نوازشریف ہی دیں گے۔تاہم یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ الیکشن کی جانب بڑھتے ماحول میں میاں نوازشریف نے پارٹی کی باگ ڈور مریم نواز کو دے کر مستقبل کی جھلک دکھلا دی تھی۔

مریم نواز کو مرکز کے بجائے صوبائی سیاست میں لانے کا امکان شاید اسی لیے زیادہ ہے کیونکہ ن لیگ کی سیاست کی بنیاد پنجاب ہے۔

مرکز میں ویسے بھی اتحادی حکومت بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس صورتحال میں مریم نواز کو پنجاب کی حکمرانی دی گئی تو انہیں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا بہتر موقع میسر آسکے گا۔

تخت پنجاب سنبھالنے میں مریم نواز کی اہلیت میں صرف ایک کمی ہے اور وہ ہے نا تجربہ کاری۔ وہ آج تک کسی عوامی عہدے پر منتخب نہیں ہوئیں، مرکز تو دور کی بات صوبائی اسمبلی کی رکن بھی نہیں بنیں۔تاہم یہی ناتجربہ کاری ان کا سب سے مضبوط ہتھیار بھی ہے۔

اتحادی حکومت کا حصہ نہ بن کر مریم نواز نے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ان پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں، اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام نہیں۔

وزارت اعلیٰ مریم نواز کو سونپی گئی تو یہ مسلم لیگ ن کے ارتقا کی جانب بھی قدم ہوگا کیونکہ وزارت عظمیٰ ہو یا وزارت اعلیٰ دونوں ہی عہدوں پر ن لیگ کی جانب سے کسی خاتون کو موقع نہیں دیا گیا۔

اس کے برعکس پیپلزپارٹی کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ ملک کی واحد خاتون وزیراعظم بے نظیربھٹو تھیں۔

آج نہیں تو کل بلاول بھٹو وزیراعظم بنے اور فریال تالپور یا آصفہ بھٹو سندھ کی وزیراعلیٰ بنادی گئیں تو شاید ملک میں پہلی منتخب خاتون وزیراعلیٰ کا اعزاز بھی پیپلزپارٹی ہمیشہ کے لیے اپنے نام کرلے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔