Time 29 نومبر ، 2023
پاکستان

10 جنوری تک بلوچ طلبہ بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم اور وزیرداخلہ پر پرچہ کٹے گا: ہائیکورٹ

تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں طے ہو گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ— فوٹو:فائل
تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں طے ہو گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ— فوٹو:فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام لاپتہ بلوچ طلبہ کو 10 جنوری تک بازیاب کرانے کا حکم دے دیا اور کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف ایف آئی آر کا حکم دوں گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچ طلبہ گمشدگی کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ 22 بلوچ طلبہ کو بازیاب کرا لیا گیا ہے، وہ گھر پہنچ چکے ہیں، 28 بلوچ اب بھی لاپتہ ہیں، تمام لاپتہ افراد کوبازیاب کرانے کی کوششیں کریں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سادہ سی بات ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے، رپورٹ بادی النظرمیں ظاہرکرتی ہے کہ ملک میں کوئی لاء اینڈ آرڈرنہیں جس کا جو جی میں آئے وہ کیے جارہا ہے، کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ کام ہوتے ہیں؟ جوبھی لاپتہ شخص بازیاب ہوتا ہے وہ آکرکہتا ہے میں کیس کی پیروی نہیں کرناچاہتا۔ 

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہاکہ بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ یہاں سے لوگ افغانستان چلے گئے، بہت سارے کیسز ایسے بھی ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے، ایک شخص بھی لاپتہ ہے تو وہ ہماری ذمہ داری ہے اورہم ڈھونڈیں گے۔ 

اس پر جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ آج 22 ویں سماعت ہے، آپ نے ساری ایجنسیز کو بلاکرپوچھنا تھا، جبری گمشدگی والے کیسز میں لوگ آپ کے اپنے اداروں کے پاس ہیں، ایک طرف مخصوص ادارے پرالزام ہے، انویسٹی گیشن بھی انہوں نے کرنی ہے، سیکرٹری دفاع ذمہ دارہیں کہ ان کے ادارے کسی ایسے کام میں ملوث نہ ہوں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آج تک کسی ریاستی ادارے کو ذمہ دار ٹھہرا کر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ جبری گمشدگی کیسزکا حل نکال کررہا کریں یا عدالت میں پیش کریں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مانتے بھی نہیں ہیں کہ یہ جبری گمشدگی کے کیسزہیں، ججز نے جاکربندے ریکورنہیں کرنے، ہم ججمنٹس دے سکتے ہیں۔

جسٹس محسن اخترکیانی کا کہنا تھاکہ کوئی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو تو قانون کے مطابق کارروائی کریں لیکن عدالت پیش کریں، ملک کے امن کیلئے اداروں کی قربانیاں ہیں، یہ ملک شہدا کی بنیاد پرچل رہا ہے، پاک فوج نے جو قربانیاں دیں اس سے انکار نہیں لیکن دوسرے پہلوؤں کوبھی نہیں چھوڑا جاسکتا، شہریوں کے حقوق ہیں۔

عدالت نے تمام لاپتہ افراد کی فیملیزکی تفصیلات حکومتی کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کی اور وزیر داخلہ کو کہاکہ دو ہفتے میں ان بلوچ فیملیز کو ملیں اور جوبلوچستان میں ہیں وہاں جاکرملیں۔

عدالت نے کہا کہ تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں طے ہو گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے، اہل خانہ ریاست اور ریاست کے اداروں کے اعلیٰ افسران کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں، سیکرٹری دفاع اور متعلقہ اداروں کو بھی ملزم نامزد کر سکتے ہیں۔

جسٹس محسن اخترکیانی نے وارننگ دی کہ اگر اگلی تاریخ پر لاپتہ طلبہ بازیاب نہ ہوئے تو وزیر اعظم، وزیر داخلہ، سیکرٹری دفاع و داخلہ کے خلاف پرچہ کاٹنے کا حکم دوں گا اور آپ سب کو گھر جانا ہو گا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی مزید سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی۔

مزید خبریں :