Time 09 دسمبر ، 2023
پاکستان

سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ محفوظ، پیر کو سنایا جائے گا

سارہ بہت پیاری بچی تھی، اےسی چلنےکی وجہ سے دروازے بند تھے، ہمیں کوئی آواز نہیں آئی: ملزم کی والدہ کا عدالت میں بیان— فوٹو:فائل
سارہ بہت پیاری بچی تھی، اےسی چلنےکی وجہ سے دروازے بند تھے، ہمیں کوئی آواز نہیں آئی: ملزم کی والدہ کا عدالت میں بیان— فوٹو:فائل

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور سیشن جج ناصر جاوید رانا کیس کا فیصلہ 14 دسمبر کو سنائیں گے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سیشن جج ناصر جاوید رانا نے سارہ انعام قتل کیس کی سماعت کی۔ ملزمہ ثمینہ شاہ کے وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمہ ثمینہ شاہ پر الزام ہے، جائے وقوع پر موجود تھیں، ملزم کی معاونت کی، ملزمہ پر الزام صرف سارہ انعام کے قتل کی معاونت تک کا ہے، 342 کے بیان میں ملزمہ ثمینہ شاہ کی معاونت کا کوئی ثبوت نہیں۔

انہوں نے دلائل میں کہا کہ سارہ انعام کے قتل سے متعلق ثبوت ثمینہ شاہ کی معاونت ثابت نہیں کرتے، پولیس کی فارنزک ٹیم جائے وقوع سے عموماً فنگر پرنٹس حاصل کرتی ہے، پراسیکیوشن نے جائے وقوع سے لی گئی کوئی فنگر پرنٹس کی رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کرائی۔

وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل مکمل کرتے ہوئے ثمینہ شاہ کو کیس سے بری کرنے کی استدعا کی۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہناتھا کہ وکیل صفائی نے کہا سارہ انعام کو صرف ایک انجری ہوئی لیکن حقیقتاً متعدد انجریز ہوئیں، طبی رپورٹ کے مطابق سارہ انعام کی موت متعدد فریکچرز اور انجریز کے باعث ہوئی، موت کی وجہ حرکتِ قلب بند ہونا نہیں سر پر متعدد زخم تھے، شاہ نواز امیر کا ڈی این اے سارہ انعام کے ساتھ میچ ہوا، ساتھ رہنے کی بات ثابت ہو گئی، کسی تیسرے شخص کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا یعنی کسی اور پر قتل کا شک نہیں کیا جا سکتا۔

پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ جائے وقوع کی تصاویر شاہ نواز امیر کے موبائل سے بنائی گئی ہیں، 23 ستمبر کو شاہ نواز امیر نے اپنے والدین کو میسیج کیا کہ مجھے سرینڈر کر دینا چاہیے۔

دوران سماعت سیشن جج ناصر جاوید رانا نے مقتولہ سارہ انعام کے والد انعام الرحیم کو روسٹرم پر بلالیا۔

مقتولہ کے والد انعام الرحیم نے کہا کہ میرے 3 بچے ہیں، سارہ انعام میری فیورٹ بچی تھی، ہم شاہ نواز امیر اور سارہ کی شادی سے خوش نہیں تھے مگر مجبور ہو گئے تھے، شاہ نواز امیر کی والدہ کو میری بیٹی کی آواز کیوں نہیں گئی، وہ ضرور چیخی ہو گی، شاہ نواز امیر اور ثمینہ شاہ نے جان بوجھ کر وقت پر پولیس کو اطلاع نہیں دی، یہ کہتے ہوئے انعام الرحیم شدید آبدیدہ ہو گئے۔

مدعی کے وکیل راؤ عبدالرحیم نے عدالت کے سامنے جائے وقوع کے تصاویری شواہد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ثمینہ شاہ کی موجودگی خود مانتے ہیں، کہتے ہیں کہ کھانا ساتھ کھایا، ملزم کی نشاندہی پر ساری ریکوری کی گئی، اپنی مرضی سے ہر چیز کیسے قبضے میں لی جا سکتی ہے؟ قتل کرنے کے بعد شاہ نواز امیر نے سارہ انعام کی تصاویر بنائیں۔

مدعی وکیل نے کہا کہ معاشرے میں اس جیسے واقعات روکنے ہیں، اشرافیہ کو قتل و غارت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دوران سماعت سیشن جج ناصر جاوید رانا نے ثمینہ شاہ کو روسٹرم پر بلایا، ملزمہ ثمینہ شاہ نے بتایا کہ میں دوسرے کمرے میں تھی جب مجھے شاہ نواز کی کال آئی، میں جب کمرے میں گئی تو شاہ نواز امیر اپنے ہوش حواس میں نہیں تھا، میں نے خود ایاز امیر کو کال کی اور کہا کہ ایسا واقعہ ہو گیا ہے، ایاز امیر نے مجھے کہا کہ شاہ نواز امیر کو باندھ کر کمرے میں بند کر دیں، یہ بھاگ نہ جائے، ایاز امیر نے پوچھا کہ بچی زندہ ہے؟ میں نے ان کو بتایا کہ اس کی موت ہوچکی، سارہ بہت پیاری بچی تھی، مجھ سے بھی بہت پیار کرتی تھی۔

ملزمہ ثمینہ شاہ کمرہ عدالت میں واقعے کے متعلق بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔

عدالت نے سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور سیشن جج ناصر جاوید رانا کیس کا فیصلہ 14 دسمبر کو سنائیں گے۔

مزید خبریں :