10 دسمبر ، 2023
”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ گنوانے کے بعد میاں نواز شریف کو سیاست و ریاست کے معاملات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردینے کے عزم کا خیال آیا بھی تو تب جب انکی سیاست کے دودھ میں صرف پانی ہی پانی بچ رہا ہے۔ اور اب پانی سر سے گزرنے کے بعد ”حکومت ہی نہیں، احتساب بھی چاہیے“ کا تقاضا ایسے لگا جیسے کوئی بچہ کھیلن کو مانگے چاند اور وہ بھی خالی میدان میں۔
جنہوں نے خالی میدان فراہم کرنا ہے، وہ چاند کیوں حوالے کرنے لگے۔ وہ کمند جو میاں صاحب نے ستاروں پہ ڈالنی تھی، وہ انہوں نے برادر خورد کے ہاتھوں کبھی کی کمانداروں کے حوالے کردی۔ اب بیانیہ رہا، نہ عوامی حمایت!! بس ماورائی قوتوں کے سلیکشن بورڈ کی مرضی ہے کہ انتخابی اسناد کیسے بانٹے، کتنوں میں کتنی کتنی بانٹے۔ مسلم لیگ ن اپنے سیکرٹریٹ میں بیٹھی ایسے ٹکٹیں بانٹ رہی ہے جیسے کوئی حکمران جماعت ترقیاتی فنڈ بانٹتی ہے۔
پنجاب کے ایک ایک حلقے سے دسیوں درخواست گزار ہیں، جنکا قرعہ فال انتخابی نشان الاٹ ہونے تک صیغہ راز رہے گا کہ محرومین کی فوج ظفر موج مخالف کیمپ میں نہ چلی جائے۔ ویسے بھی ٹکٹ کے فیصلے تو اب آسمانوں میں ہونے ہیں اور ابھی طے ہونا ہے کہ کس کو کتنی اوقات میں رکھا جانا ہے۔
مسلم لیگ ن کو کیا ملنا ہے، استحکام پاکستان پارٹی کا کیا حصہ ہوگا، آزاد پنچھی کتنے ہونگے اور بچا کھچا تحریک انصاف کیلئےآزادانہ مقابلے کیلئے کھلا چھوڑا جانا بھی ہے کہ نہیں اگلے ہفتوں میں پتہ پڑجائے گا۔ سیاست کی اس کنگالی میں 2017 کی غیر جمہوری سازش میں ملوث طاقتور کرداروں کے احتساب کا خواب دیوانے کی خوش فہمی کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ رائے عامہ پرانے زخموں کی بھولی بسری یاد میں آنسو بہائے یا پھر نئی مشقِ ستم کا شکار مقبول رہنما کیلئے آہیں بھرے۔
17 ماہ کی شہباز حکومت اور پھر آئندہ انتخابات کیلئے ن لیگ کی ق لیگ ٹائپ کایا پلٹ کے بعد لیگی سیاست کے پلے بچا کیا ہے۔ ن لیگ تو ایسے بیٹھ گئی ہے جیسے ”بس بات ہوچکی ہے اور وزارت عظمیٰ پکی“ ہے۔ ایسے میں عوامی حمایت بچی ہے، نہ اسکی کوئی پروا ہے۔ اب خالی خولی پھوکے نعروں سے پژمردہ سیاست کی لاش میں جان پڑنے والی نہیں۔ بیچ میں کہیں پیپلزپارٹی کی پرانی چنگاری چمکی بھی تو آصف علی زرداری نے اسے کیش کروا کے جوابی دعویٰ داغ دیا ہے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کو بظاہر کوئی خطرہ نہ تھا اور اینٹی پی پی پی مہاجر پنجابی اتحاد کی کوشش سے فقط نسلیاتی تقسیم تیز ہوتی جسکا فائدہ پیپلزپارٹی ہی کوہونا تھا۔ نوجوان بلاول بھٹو کی تیزی طراری کا جادو ابھی جما نہیں تھا کہ پدری شفقت نے پسری پرواز کے پر کاٹ دئیے۔ اب لیول پلینگ فیلڈ کی دہائی کا معاملہ شراکتی مسابقت میں بدل گیا ہے۔
انتخابات کے 8 فروری کو انعقاد کے حوالے سے کنفیوژن کے پیچھے عوامی حمایت کا وہ ترپ کا پتہ ہے جو لگتا ہے کہ پابند سلاسل سابق وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ میں ابھی بھی برقرار ہے۔ ساری سیاسی کشمکش پرو عمران اور اینٹی عمران مخمصے (Dilemma)کے گرد گھوم رہی ہے۔ نہ کوئی انتخابی مہم ہے، نہ بیانیوں کی جنگ اور نہ عوامی اور قومی ایشوز پہ کوئی مباحث۔
الیکٹرانک میڈیا پہ سارے بحث مباحث نام لینے پر پابندی کے باوجود عمران خان کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ ساری انتخابی سیاست قبل از انتخابات کی ممکنہ شرائط کی قیاس آرائیوں پہ مرکوز ہوکررہ گئی ہے۔ غرض نہیں تو عوام کی منشا بارے نہیں، جنکے بارے تجزیہ کاروں کے ہوائی زائچے دھول اُڑانے میں لگے ہیں۔ برادران صحافت ذرا پنجاب اور پختونخوا کے شہروں اور قصبوں میں جاکر رائے عامہ معلوم کرنے کی کچھ تو کوشش کرو، سب تجزئیے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
نوجوان نسل کی ایک دیوانہ وار لہر ہے جو 8 فروری کو کرشمہ سازی کیلئے بے چین ہے۔ معاملہ فقط یہ نہیں کہ عمران خان اپنی تمام تر کجرویوں اور غلطیوں کے باوجود کتنا پاپولر ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ پرانے دور کی خاندانی جماعتیں اور انکی مستقل منجمد شکلیں کتنی غیر مقبول ہیں۔ رائے عامہ بلوچستان میں تو کب کی دفن کردی گئی ہے اور سندھ میں یہ بھٹو اور بینظیر کے خون سے تاریخی طور پر منجمد ہوکے رہ گئی ہے۔ اگر کہیں یہ متحرک ہے تو اسوقت پہلے نمبر پہ پختونخوا میں اور دوسرے نمبر پہ پنجاب میں جہاں یہ جب ابلے گی سب کچھ بہالے جائیگی۔
ہم نے تو سیاست و صحافت میں یہ سیکھا تھا کہ عوام سے سیکھو (ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ درست بھی ہوں)۔ اسکی ایک جھلک میں نے گزشتہ دنوں مختلف عوامی مقامات میں عوام میں گھل مل کر دیکھی تو حیران ہوکررہ گیا کہ بس ایک ہی رائے ہے جسے کہ شرف قبولیت کی کوئی پروا نہیں۔
گزشتہ ہفتوں میں جیل سے عمران خان کے واحد بیان نے اُن کے امریکی سازش کے بیانیے کو پھر سے تروتازہ کردیا ہے جسے فلسطین میں بہنے والے خون نے امریکہ مخالف جذبات کو نئی انگیخت بخشی ہے اور انکے نوجوان پیروکاروں کا خون ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان کی اُمید سے گرما گیا ہے۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پہ آج سپریم کورٹ ندامت کا بوجھ اُتارنے کیلئے تیار ہوئی ہے اور جس طرح منصفین سابق وزیراعظم نواز شریف کو اقامہ پر دی گئی سزا کا ازالہ کرتے ہوئے شرمسار ہیں، اسی طرح جو لوگ ہر حالت میں عمران خان کو سائفر جیسے لغو کیس اور دوسرے مقدمات میں سزا دینے پہ تلے بیٹھے ہیں وہ تاریخ میں شرمسار ہونے کیلئے تیارر ہیں۔ یہ کیسا ملک ہے جسکے ہر پاپولر لیڈر اور منتخب وزرائےاعظم کو ناانصافی کی سولی پہ چڑھایا جاتا رہا ہے۔
اگر ملک کے وزرائے اعظم ملک کے وفادار نہیں تو پھر کون ہے؟۔ اب آپ ملک کی سب سے پاپولر پارٹی کو میدان سے نکالنے یا اُس پر انتخابی زمین تنگ کرنے کے جو سو حربے اپنا رہے اس سے انتخابی عمل اور اسکے نتائج کے پلے کیا اخلاقی جواز بچ رہے گا۔ تحریک انصاف بلے کے نشان پہ انتخابات میں گئی تو دیکھئے ہر حلقے میں ایک نئی نسل پرانی نسل کے جغادریوں کو کیا تگنی کا ناچ نچاتی ہے۔ اگر بلا بیلٹ پیپر پر نہ بھی رہا، تب بھی میدان سجے گا بشرطیکہ عمران انتخابات کے بائیکاٹ کی غلطی نہ کریں۔
لگتا ہے کہ پختونخوا تو ہاتھ سے نکل گیا ہے بھلے مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کیسا ہی اتحاد کرلیں یا پھر بلاول بھٹو اور ایمل ولی خان سیکولر بنیاد پر اکٹھے ہوجائیں۔ رہ گیا پنجاب وہ فی الوقت سیاسی سکوت میں ہے جسکی تہہ میں چھپی نوجوانوں کی بیزاری کیا رنگ دکھائیگی، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاریخ بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے؟ کیا پنجاب کا بیزار نوجوان جمہوری کایا پلٹ سکتا ہے؟ ہاں! فقط اس شرط پر کہ وہ جمہوریہ کا داعی بنے محض ایک شخصیت کا پروانہ نہیں!۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)