21 دسمبر ، 2023
اسلام آباد میں موجود بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا سے نگران وفاقی وزرا پر مشتمل کمیٹی نے مذاکرات کیے، تمام تحفظات دور کرنےکی یقین دہانی کرائی جس کے بعد گرفتار ہونے والی احتجاجی خواتین کی فوری رہائی کا حکم دے دیا گیا۔
بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کے خلاف اسلام آباد میں پولیس کریک ڈاؤن کے معاملے پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی، کمیٹی کی سربراہی فواد حسن فواد کر رہے ہیں،کمیٹی میں وفاقی وزرا جمال شاہ اور مرتضیٰ سولنگی بھی شامل ہیں۔
حکومتی کمیٹی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی سے ملاقات کی اور ان کی شکایات سنیں اور تمام تحفظات دور کرنےکی یقین دہانی بھی کرائی، مذاکرات کے بعد گرفتار احتجاجی خواتین کی فوری رہائی کا حکم بھی دے دیا گیا۔
مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر فواد حسن فواد نے بتایا کہ ہم اچھی خبر لے کر آئے ہیں، نگران وزیراعظم کی ہدایت پر گئے، خواتین اور بچوں سے ملے، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے وزیراعظم سے رابطہ کیا اور درخواست کی معاملہ فوری حل کیا جائے۔
فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں کو رہا کرنے کا کہا گیا ہے، کچھ لوگوں کی شناخت ہونا باقی ہے، آئی جی سے کہا کہ شناخت میں تاخیر نہ کی جائے، ایف آئی آر میں جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے ان کا معاملہ عدالت میں ہے، ایف آئی آر میں نامزد افراد تعداد میں بہت کم ہیں، 90 فیصد مرد حضرات کو رہا کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی چاہےگی کہ مسئلے کا صحیح حل پیش ہو، پرامن احتجاج تو 23 دنوں سے چل رہا تھا، پرامن احتجاج بھی کسی قانون اور قاعدےکا پابند ہوتا ہے، حکومت کے پاس بہت انٹیلی جنس اطلاعات تھیں، بڑے نقصان سے بچنےکے لیے حکومت کو اقدامات کرنے ہوتے ہیں، ایف نائن پارک میں جانے کے لیے اس لیےکہاگیا کہ خدشات تھے،کسی بھی کارروائی کا آغاز پولیس کی جانب سے نہیں ہوا۔
ادھر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے بلوچ رہنما مہارنگ بلوچ سمیت33 بلوچ مظاہرین کو ضمانت پر رہا کرنےکا حکم دے دیا۔
پولیس نے 8 مظاہرین کے جسمانی ریمانڈ، اور 25 کی شناخت پریڈ کی استدعا کی تھی۔
عدالت نے مظاہرین کو پانچ پانچ ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانےکا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ضمانتی مچلکے جمع کروانے تک مظاہرین کو اڈیالہ جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر رکھا جائے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی لگائی گئی دفعہ 395 اور 440 حقائق پرپورا نہیں اترتیں، مقدمے میں دیگر تمام دفعات قابل ضمانت دفعات ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی بلوچ لانگ مارچ کےشرکاکی گرفتاریوں اور کریک ڈاون کےخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔
آئی جی اسلام آباد نےکہا کہ مظاہرین کے پاس ڈنڈے تھے اور انہوں نے پتھرمارے جس سےکچھ لوگ زخمی ہوئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیےکہ یہ پاکستانی شہری ہیں اور احتجاج تو اُن کا آئینی حق ہے، کسی نے کوئی دہشت گردی تو نہیں کی، عدالت نے آئی جی کو حکم دیا کہ کل تک بتائیں کتنے افراد جوڈیشل ہوئے،کتنے گرفتار ہیں اور کتنے رہا ہوئے۔