28 دسمبر ، 2023
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ظہیر بلوچ کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا، رہائی پاتے ہی انہوں نے بقیہ 34 بلوچ طلبہ و مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔
اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر ظہیر بلوچ نے کہا کہ اب بھی 34 مظاہرین جیل میں ہیں جن میں سے اکثریت طلبہ کی ہے۔
انہوں نے جیل میں قید طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات سے امتحانات ہیں، جیل میں قید طلبہ کو رہا نہ کیا گیا تو ان کا سمسٹر اور تعلیم متاثر ہو گی، گرفتار طلبہ اور مظاہرین کو فوری رہا کیا جائے۔
اس موقع پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن تمام افراد کو رہا کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ مارچ کے شرکا کی گرفتاری سے متعلق کیس میں اسلام آباد پولیس سے خواتین مظاہرین کی گرفتاری پر رپورٹ طلب کر لی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت میں کیس کی سماعت کے موقع پر بلوچ مظاہرین کے وکیل عطا کنڈی نے کہا کہ بلوچ مارچ کے شرکا اسلام آباد پہنچے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا، واٹر کینن، آنسو گیس استعمال کیے گئے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیاکہ کتنے بلوچ مظاہرین گرفتار ہیں؟ وکیل عطا کنڈی نے کہا 34 بلوچ مظاہرین اب بھی پولیس کی تحویل میں ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق 196 بلوچ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 162 ضمانت پر ہیں، تاہم ڈاکٹر ظہیر بلوچ اب تک نہیں ملے۔
سماعت کے دوران عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی دشمن نہیں چاہیے، ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ مظاہرین کو آپ گود میں بٹھالیتے ہیں، اسلام آباد کے ریڈ زون میں بھی پیمپر کیا جاتا رہا ہے اور کچھ کے ساتھ یہ حال کرتے ہیں، احتجاج سے نمٹنے کی پالیسی یکساں ہونی چاہیے۔
جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا کہ اگرایس ایس پی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تو سیکرٹری داخلہ کو بلالیتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کچھ کو احکامات پر پولیس کی جانب سے تحفظ دیا جاتا ہے، کیا بلوچ مظاہرین نے تنصیبات پر حملہ کیا تھا؟
عدالت میں ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا تھا کہ ظہیر بلوچ کی ضمانت ہوچکی ہے، مچلکے جمع ہونے پر رہا کر دیے جائیں گے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 22 دسمبر تک ملتوی کر دی۔