05 جنوری ، 2024
اٹارنی جنرل منصور عثمان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کی آئین کی غلط تشریح کی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان نے اپنے دلائل میں 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اسحاق خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا بڑی عجیب بات ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس ڈسکس نہیں ہوا، جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا اصل میں خاکوانی کیس کیا تھا؟
اٹارنی جرل نے بتایا کہ خاکوانی کیس نااہلی سے ہی متعلق تھا، کورٹ آف لاء کیا ہوگی2015 میں 7 رکنی بینچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لاء کے سوال کا جواب نہیں دیا، چیف جسٹس نے پوچھا سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیار میں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ درست نہیں، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں آئین کی تشریح غلط کی ہے، سپریم کورٹ تعین کرےکہ سیاستدانوں کی اہلیت کی ڈکلیئریشن کس نےدینی ہے۔
جسٹس امین نے پوچھا کیا آپ چاہتے ہیں اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے سوالات کا فیصلہ ہم کریں؟ جس پر منصور عثمان نے کہا عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہوگا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیئریشن کس نے دینی ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لاء کیا ہے۔