06 جنوری ، 2024
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے کسی بھی شہری کو لاپتہ نہ کرنے کی تحریری یقین دہانی طلب کر لی اور بلوچ مظاہرین کے پرامن احتجاج پر پولیس کو نارروا سلوک سے روک دیا۔
سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا جسے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔
لاپتہ افراد کیس کے 3 جنوری کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں لکھا کہ کیس کی مزید سماعت عدالت کی طلب کردہ دستاویزات جمع کرانے کے بعد ہو گی اور اعتزاز احسن کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے عائد اعتراضات ختم کیے جاتے ہیں۔
حکم میں کہا گیا ہے کہ اعتزاز احسن کی درخواست پر عدالت صرف لاپتہ افراد تک محدود رہے گی، سیاسی وابستگی رکھنے اور واپس آ جانے والوں کے معاملے کو عدالت نہیں دیکھے گی۔
سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کمیشن کو 10 روز میں اپنے کوائف سے متعلق تفصیلات اٹارنی جنرل کو جمع کرانے کی ہدایت کر دی، عدالت نے اٹارنی جنرل کو لاپتہ افراد کمیشن سے رپورٹ آ جانے کے بعد حتمی رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔
حکم نامے کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں چار رکنی لاپتہ افراد کمیشن 2011 سے قائم ہے، آمنہ مسعود جنجوعہ اور دیگر فریقین نے لاپتہ افراد کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، رجسٹرار کمیشن خالد نسیم نے بتایا کہ کمیشن کی کوششوں سے بہت سے لاپتہ افراد بازیاب ہوئے، وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کمیشن کے کئی پروڈکشن آرڈرز نظر انداز کیے گئے ہیں، فیصل صدیقی کو عدالت لاپتہ افراد کیس میں معاون مقرر کرتی ہے۔
تحریری حکم نامہ میں عدالت نے لکھا کہ پر امن مظاہرین پر کسی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دیتی، نوٹس میں لایا گیا کہ عدالتی چھٹیوں میں پرامن مظاہرین پر تشدد کیا گیا۔
حکم نامے میں سینیٹ سے لاپتہ افراد بل گم ہونے کا بھی ذکر کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ الزام ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی کوششوں کو اسی پارٹی کے ووٹوں سے منتخب سینیٹ چیئرمین نے ناکام بنایا، یہ بہت سنگین الزام ہے جو صادق سنجرانی پر لگایا گیا ہے، صادق سنجرانی کو اس کیس میں درخواست گزار نے فریق نہیں بنایا، جب تک درخواست گزار انہیں فریق نہیں بناتے ان الزامات کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔