11 جنوری ، 2024
سپریم کورٹ کی طرف سے تاحیات نااہلی کے خاتمے کا فیصلہ دیئے جانے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تعصب ،بغض اور کینہ میں لتھڑے بعض افرا د تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بدنام زمانہ جج ،جسٹس منیر سے تشبیہ دے رہے ہیں ۔مگر ان دونوں مقدمات میں ماسوائے اس کے کوئی مماثلت نہیں کہ تب اور اب درخواست گزاروں کا تعلق بلوچستان سے تھا۔
بلوچستان کے علاقہ لورالائی کے مکین دوسو نے 1958ء میں ایک شخص کو قتل کردیا ۔تب لورالائی قبائلی علاقے میں شمار ہوتا تھا چنانچہ دوسو کو گرفتار کرکے لویہ جرگہ کے حوالے کردیا گیا ۔جرگے نے سماعت کے بعد دوسو کو قتل کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزا سنادی تو اس نے لاہور ہائیکورٹ میں،جو تب مغربی پاکستان ہائیکورٹ کہلاتی تھی ، اپیل دائر کردی۔
ہائیکورٹ نے دوسو کو بری کردیا مگر وفاقی حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ایک عام شہری کے اس مقدمے کو اسلئے تاریخی حیثیت حاصل ہوگئی کہ اس کی آڑ میں جسٹس منیر نے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو بروئے کارلاتےہوئے 7اکتوبر1958ء کو نافذ کئے گئے مارشل لا کو قانونی جواز فراہم کردیا۔
جس طرح نظریہ ضرورت متعارف کرائے جانے کے سبب دوسو کیس کو تاریخی حیثیت حاصل ہوگئی ،اسی طرح سمیع اللہ بلوچ کیس بھی برسوں یاد رکھا جائے گا۔درخواست گزار سمیع اللہ بلوچ پیشے کے اعتبار سے ٹھیکیدار ہیں اور ان کا تعلق ضلع خاران سے ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سابق سینیٹر ثنااللہ بلوچ کے چھوٹے بھائی سمیع اللہ بلوچ خاران میں بی این پی کے ضلعی صدر بھی ہیں۔سمیع اللہ بلوچ نے بلوچستان اسمبلی کے سابق رُکن میر عبدالکریم نوشیروانی اور ان کے بیٹے میر شعیب نوشیروانی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔
استدعا یہ تھی کہ چونکہ مدعاعلیہان کو دستور کی وفعہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے لہٰذا تاحیات نااہلی کے باعث انہیں دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان درخواستوں پر سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ تشکیل دے دیا جس میں انکے علاوہ جسٹس شیخ عظمت سعید،جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔اس نوعیت کے تمام مقدمات کو یکجا کردیا گیا۔عدالت نے منیر اے ملک اور علی ظفر ایڈوکیٹ کو اپنا معاون مقرر کیا جبکہ اشتر اوصاف علی تب اٹارنی جنرل تھے۔
14فروری 2018ء کو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جبکہ 12اپریل 2018ء کو جسٹس عمر عطا بندیال کا تحریر کیا ہوا یہ فیصلہ سنادیا گیا۔تمام جج صاحبان نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ چونکہ آئین کے آرٹیکل 62(1)fمیں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا اس لئے اس شق کے تحت نااہل قرار دیئے جانے والے افراد عمر بھر کیلئے نااہل سمجھے جائیں گے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے قرآنی آیات کا سہارا لیکر یہ فیصلہ تحریر کیا جو دراصل آئین کو ازسر نو لکھنے کے مترادف تھا۔
عاصمہ جہانگیر جو سابق رکن قومی اسمبلی رائے حسن نواز کی وکالت کر رہی تھیں ،انہوں نے جج صاحبان کو سمجھانے کی کوشش کی ،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے دلائل دیئے مگر چونکہ نوازشریف کا راستہ روکنا مقصود تھا اسلئے جج صاحبان نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنادیا۔ماضی میں اس حوالے سے عدالتیں مختلف فیصلے دیتی رہیں مثال کے طور پر 2013ء میں جسٹس افتخار چوہدری نے عبدالغفور لہڑی کیس میں قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63میں نااہلیت سے متعلق بعض شقیں عارضی نوعیت کی ہیں ،ایک شخص نااہل قرار دیئے جانے کے بعد دوبارہ اہل ہوسکتا ہے۔مثال کے طورپر 2015ء میںNA-101 سے رکن قومی اسمبلی افتخار چیمہ کو ڈی سیٹ کیا گیامگر ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے وہ اہل قرار پائے۔رائے حسن نواز کے کیس میں شاید اس لئے کڑا معیار رکھا گیا کہ ان کے نام میں نواز آتا تھا مگر جمشید دستی کو ایک بار پھر صادق و امین قرار دیتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی گئی۔
عمران خان،شیخ رشید اور خواجہ آصف نااہلی سے بچ گئے مگر جہانگیر ترین اور نوازشریف کو ہتھوڑے کی ضرب سے کچل دیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تب بھی یہی کہتے رہے کہ متضادفیصلوں سے پسند ناپسند کا تاثر مل رہا ہے ،اس حوالے سے تمام مقدمات یکجا کرکے یکساں معیاراور اصول طے کیا جائے ۔اول تو آئین کے آرٹیکل 62(1)Fکے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں تھا۔جب دیگر شقوں میں نااہلی کی مدت پانچ سال بتائی گئی ہے تو یہاں بھی یہی سزا بنتی ہے لیکن بالفرض محال جج صاحبان کو کسی قسم کا شک و شبہ تھا بھی تو اسے دور کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ معاملہ اس وقت کی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا جاتا اور کہا جاتا کہ محولابالا ابہام دور کیا جائے۔
اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رُکنی بنچ نے جو فیصلہ سنایا ہے اس میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ اس آرٹیکل کو اکیلے نہیں پڑھا جاسکتا۔یہ کہنا کہ چونکہ مدت کا تعین نہیں ہے اس لئے نااہلی تاحیات ہوگی،مناسب نہیں۔الیکشن ایکٹ فیلڈ میں موجود ہے اور اس میں واضح طور پر نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے۔اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح دراصل آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپریل 2018ء میںجب تاحیات نااہلی کا فیصلہ دیا گیا ،نوازشریف نہ تو تب اس مقدمہ میں فریق تھے اور اب جب تاحیات نااہلی کو ختم کیا گیا ہے ،نہ اب فریق ہیں۔البتہ جس طرح تب وہ اس فیصلے کی زد میں آئے ،اسی طرح اب اس سے مستفید ہوں گے۔نوازشریف ہی نہیں عمران خان کو بھی اس فیصلے سے ریلیف ملا ۔اگر یہ فیصلہ نہ آتا تو عمران خان بھی تاحیات نااہل رہتے مگر اب وہ پانچ سال بعد انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔شخصیات کی محبت و نفرت اور سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ بہت تاریخی فیصلہ ہے کیونکہ نہ صرف پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے بلکہ بعض جج صاحبان نے ’’صادق و امین ‘‘کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا جو منصب ازخود سنبھال لیا تھا ،وہ سلسلہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔