11 جنوری ، 2024
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ محمد ابراہیم خان نے توہین عدالت کیس میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی رہنما ایمل ولی خان کو پریس کانفرنس میں تردیدی بیان جاری کرنے کا حکم دیا تاہم اے این پی رہنما عدالتی حکم کے باوجود اپنے مؤقف قائم رہے۔
توہین عدالت کیس میں اے این پی رہنما ایمل ولی خان پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا ویڈیو لگائیں اور دیکھیں کہ یہ وہی بندہ ہے کہ نہیں، ہم ہر سیاسی جماعت کا خیال رکھتے ہیں، ہم قانون کی پاسداری کرتے ہیں، ایمل ولی میرا چھوٹا بھائی ہے میں معاف کردوں گا لیکن یہ ویڈیو لگائیں، وکلا نے استدعا کی کہ ویڈیو عدالت میں نہ لگائی جائے، جو ماحول بنا تھا اس کی وجہ سے یہ ہوا۔
جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا اس ویڈیو کو دیکھنے دیں، ایمل دیکھیں اور خود اقرار کریں، مجھے اپنا غم نہیں مجھے عدالت کے وقار کا غم ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے ایمل ولی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ میرے بچےکی عمر کے ہو، آپ بہت بڑے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی ہم عزت کرتے ہیں، ایم ولی خان نے کہا میں نے صرف گلہ کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے گلہ مرد نہیں عورتیں کرتی ہیں، آپ آکر اپنے تحفظات بیان کرتے، آپ کے بیان سے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچا، میرا ذاتی مسئلہ ہوتا تو اکیلے بلاتا۔
ایم ولی خان نے کہا نہیں مجھے عدالت میں زیادہ مزہ آتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا میرے دوستوں سے پوچھو کہ کسی سیاسی جماعت سے میرا تعلق رہا، یہ میرا کیس ہے نہیں، یہ اے ٹی سی کا کیس ہے وکلاء کو پتہ ہے۔
وکیل ایم ولی خان نے کہا جو ویڈیو ہے وہ الفاظ کا ہیرپھیر ہے دھمکی نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کا مطلب ہے مجھے جو دھمکی ملی اس کے بعد بھی میرا خاندان محفوظ ہے، اگر یہ پٹھان ہے تو میں بھی پٹھان ہوں۔
ایمل ولی خان نے کہا میں عدالت کی توہین کا سوچ نہیں بھی سکتا، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، آپ ہمارا میڈیا ٹرائل کررہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ بحث کر رہے ہیں تو میں اس کیس کو لارجر بینچ بھیجتا ہوں، باچا خان اور ولی خان صرف آپ کے دادا نہیں ہیں، وہ ہم سب کے دادا ہیں۔
جسٹس محمد ابراہیم خان نے ایمل ولی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اگر عدلیہ کا احترام کرتے ہو تو جاؤ باہر میڈیا پر تردیدی بیان دو، پریس کانفرنس میں اپنے بیان کی وضاحت کرو۔
عدالتی حکم پر ایمل ولی عدالت سے باہر پریس کانفرنس کیلئے نکل گئے اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا اپنے بیان پر قائم ہوں، پشاور ہائیکورٹ پی ایچ سی ہونی چاہیئے پی ٹی آئی ہائیکورٹ نہیں ہونی چاہیے۔