Time 22 جنوری ، 2024
بلاگ

بلاول کا نواز شریف کو مناظرے کا چیلنج

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

اردو محاورہ ہے کہ باپ کو پُوت پِتا پَت گھوڑا بَہُت نَہِیں تو تھوڑا تھوڑا۔ اس محاورے کو عموما باپ پر پوت پتا پرگھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا بھی کہا جاتا ہے، مطلب ایک ہی ہے یعنی ہر شخص میں اپنے والد کی خصوصیات ہوتی ہیں۔

یہ تو شاید تاریخ طے کرے کہ بلاول بھٹو میں اپنے والد آصف علی زرداری کی کس قدر خصوصیات ہیں اور کتنی اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی تاہم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے جس میں انتخابی مہم کی مکمل قیادت بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔

ساتھ ہی'ایک زرداری، سب پہ بھاری' کے نام سے مشہور مفاہمت کے شہنشاہ اپنے بیٹے کی وزارت عظمی کی کٹھن راہ ہموار کرنے کے لیے  پس منظر میں سیاسی بساط پربیٹھے ہرممکن چال چل رہے ہیں۔

انتخابی مہم کےدوران ایک ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے مجھے پتا نہیں کہ بلاول بھٹو کو خود خیال آیا، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر لکھا میرا مضمون' بے نظیراورسیاسی مباحثہ' پڑھا یا بی بی کے تاریخی انٹرویو کےدوران اپنی موجودگی کے سبب لاشعور سے بات سامنے آئی کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بولے' دنیابھر میں مباحثے ہوتے ہیں۔ میں اپنی پارٹی کا وزارت عظمی کا امیدوار ہوں، ن لیگ اپنا پارٹی کا جو بھی امیدوار ہے، وہ آئے میرے ساتھ قومی ٹی وی پر مباحثہ کرے۔'

بے نظیر بھٹو کی شہادت کی برسی کے موقع پر جب بلاول بھٹو نے انتخابی مہم شروع کی تھی تو میں نے اس وقت لکھا تھا کہ کیوں ناں امریکا، برطانیہ اور کینیڈا سمیت کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی جماعتوں کے وزارت عظمی کے امیدواروں کے درمیان مباحثہ ہو۔ نیوٹرل صحافی ان رہنماؤں اورسیاسی جماعتوں کا ماضی کھنگالیں اور منشور پرکھیں۔

یہ بات اس لیے بھی لکھی تھی کیونکہ یہی تجویز میں نے سن دو ہزار سات میں بے نظیر بھٹو کو پیش کی تھی،جب وہ انتخابات سے پہلے وطن واپسی کی تیاری کررہی تھیں۔ جیو نیوز کے لیے مجھے دیے گئے اس آخری انٹرویو میں بے نظیربھٹو سے میں نے کہا تھاکہ آپ اپنے حریف نوازشریف سےمباحثہ کیوں نہیں کرتیں؟

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

چہرے پر مسکراہٹ سجائے بےنظیر بھٹو کا برجستہ جواب تھا کہ 'میں آپ جیسے نوجوانوں پر چھوڑوں گی۔ یہ دنیا آپ کی ہے، جب ہم بڑے ہورہے تھے، تب ایسا نہیں ہوتا تھا مگرابھی ہم نوجوانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ جیسا آپ کہیں گے، ہم ویسا ہی کریں گے'۔

بے نظیر بھٹو کا میں نے یہ انٹرویو 'میثاق جمہوریت کے کچھ عرصے بعد لیا تھا۔ اس دور میں بے نظیربھٹو اور میاں نوازشریف کی بہت گاڑھی چھنتی تھی۔ دبئی کے ایمریٹس ہلز میں واقع سینیٹر اسحق ڈار کے گھر پر بے نظیر کی نوازشریف سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں، میں بحثیت رپورٹر میں دونوں رہنماوں کی کوریج پرمامور تھا۔ اس لیے انتہائی قریب سے جاننے کا موقع ملا کہ یہ رہ نما اس دور کے آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف کس طرح صف آرائی کررہے تھے۔

بلآخر بے نظیربھٹواور نوازشریف نے میثاق جمہوریت کرلیا۔ بنیاد یہ تھی کہ دونوں میں سے کوئی بھی آرمی چیف سے درپردہ معاملات طے کرکے وزیراعظم بننے کی دوڑ جیتنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ خدشہ تھا کہ اگر بے نظیر یا نوازشریف میں سے کسی نے ڈیل کرلی تو دوسرے کی سیاسی چُھٹی ہوجائےگی۔

بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے نمائندوں سے این آر او پر بات شروع کی تو چوٹی کے صحافی جذیات سے متعلق دور دور کی کوڑیاں لارہے تھے مگر کوئی بھی یہ کنفرم کرنے کو تیار نہ تھا کہ ڈیل ہوئی یا نہیں۔ اسی عرصے میں یہ خبر آئی کہ بے نظیر کی جنرل پرویزمشرف سے ابوظبی میں ملاقات ہوگئی۔

مسلم لیگ ن کے بہت بڑے رہنما، جن کا صحافتی آداب کے سبب نام ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھتا، نے ایک رات مجھے فون کیا اورڈیل سے متعلق میری معلومات کھنگالیں۔

میں نے انہیں صاف بتایا کہ میں پیپلزپارٹی کے ذرائع سے ڈیل ہونے کی تصدیق نہیں کرسکا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ 'ڈیل ہوگئی ہے' بعد میں کچھ تفصیل کےساتھ میں نے جیونیوز پر بریکنگ کی صورت میں یہ ایکسکلوسیو خبر نشر کردی۔

بے نظیر مشرف ڈیل پرمیاں نوازشریف سخت ناراض تھے۔انٹرویو کا موقع ملا تو جنرل مشرف سے ملاقات پر میں نے بے نظیر بھٹو سے یہ بھی پوچھا کہ 'آخر میثاق جمہوریت کا کیا ہوا؟'

بےنظیر بھٹو بولیں 'جب ہم بات چیت کرتے ہیں تو میں یہ تو نہیں کہتی کہ آپ مجھے پرائم منسٹر بنائیں، میں آپ کو پریزیڈنٹ بناؤں گی، ہم یہ بات کرتے ہیں کہ پاکستان کو ہم مستقبل کے لیے کون سا نظام دے سکتے ہیں جس کے تحت امن ہو، جمہوریت ہو اور عوامی پالیسیز بنیں۔'

میں نے کہا کہ اس ڈیل کے بعد میاں نوازشریف کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کا اصل علم اب وہ بلند کریں گے۔ یہ سنتے ہی بے نظیر بھٹو کے تیور بدل گئے۔

زرا کرخت لہجے میں بولیں کہ کیا جمہوریت کی بات وہ نوازشریف کریں گے جو لاہور سے چالیس صندوق لے کر جدہ گئے تھے اور پھر بخیے ادھیڑتی چلی گئیں۔

شاید میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان اسلیے بھی دینا شروع کر دیے تھے کہ میثاق جمہوریت کو جیالوں اور ن لیگی ووٹروں نے دل سے قبول نہیں کیا تھا۔

سن 1980 اور نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں تازہ تھیں۔ اور دونوں لیڈر بھی جانتے تھے کہ وطن واپسی پر وہ ایک دوسرے کےساتھ نہیں، ایک دوسرے کے خلاف مہم چلائیں گے تب ہی ووٹ ملیں گے۔

اب یہ بلاول بھٹو ہی بتا سکتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے وطن واپس آئے میاں نواز شریف کی جماعت پر انہوں نے 'میثاق جمہوریت پھاڑ کر پھینکنے' کا الزام کیوں لگایا۔ اور کیا وجہ ہے کہ بے نظیر کی طرح بلاول بھٹو بھی تیر اور تلوار لے کر شیر کےشکار کو نکلے ہیں۔

جہاں تک سیاسی مباحثے کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو کا آخر ن لیگ کے کس لیڈر سے مباحثہ ہو؟

یہ حقیقت سہی کہ نوازشریف ہی ن لیگ کی جانب سے وزارت عظمی کے امیدوار ہیں مگر تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف چند ماہ کی وزارت خارجہ سنبھالنے والے نوجوان بلاول بھٹو کے مدمقابل میدان میں اُتریں بھی تو کیسے؟

مریم نواز اس عرصے میں سیاسی طورپر بہت منجھ چکی ہیں لیکن وہ ن لیگ کی جانب سےوزارت عظمی کی سرفہرست امیدوار نہیں۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ مباحثے سے پہلے پارٹی منشور سامنے آنا چاہیے۔ انتخابات ہونے یا نہ ہونے کا جھنجنا بجانے والے لاکھ بے یقینی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کریں، انتخابات 8 فروری کو ہونے کا یقین کیے بیٹھی پیپلزپارٹی اپنا انتخابی منشورپیش کر چکی ہے۔ چند خدو خال ن لیگ نے بھی پیش کیے ہیں مگرمنشور حتمی شکل میں تاحال سامنے نہیں لایا گیا۔

انتخابات میں ویسے بھی اتنے کم دن رہ گئے ہیں کہ اس بار یہ مباحثہ ممکن نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اگلی بار ہی سہی، آصف زرداری اور میاں نوازشریف کا مباحثہ ہو یا بلاول بھٹو اور مریم نواز کے درمیان بحث، ووٹرز کو ان کی پالیسیاں جاننے کا اچھا موقع ضرور ملےگا۔

رہا سوال آصف زرداری کی اس بات کا کہ 'بلاول ابھی ٹرینڈ نہیں، اسکی ٹریننگ کررہے ہیں، اسکو کچھ وقت لگے گا'۔ اس پر مجھے جاوید ہاشمی کی بات یاد آئی جنہوں نے کہا تھا کہ 'آصف زرداری کی سیاست کو سمجھنے کیلیے پی ایچ ڈی کرنا ضروری ہے' ۔

ٹریننگ سے متعلق اگر سابق صدر کی بات کا مطلب یہ ہے کہ بلاول نے 'بے نظیر کا سیاسی انداز' توسیکھ لیا مگر 'زرداری چالبازی' سیکھنے میں کچھ کسرباقی ہے تو اس پر حریفوں کو شادیانے بجانے کی بجائے شکرانے کے نوافل ادا کرنے چاہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔