22 جنوری ، 2024
اسلام آباد: پاکستان نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی مذمت کی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہےکہ بابری مسجدکو 6 دسمبر 1992کو انتہا پسندگروہ نے شہیدکیا تھا، بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے اس گھناؤنے کام میں ملوث جرائم پیشہ افراد کو بری کردیا اور مندر کی تعمیر کی اجازت بھی دے دی ۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق یہ سیاسی، معاشی وسماجی طور پر بھارت کے مسلمانوں کی پسماندگی بڑھانےکی کوشش کاحصہ ہے۔
خیال رہےکہ بھارتی شہر ایودھیا میں آج رام مندر کی افتتاحی تقریب ہوئی جس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 50 میٹر طویل مندرکے مرکز میں ہندو دیوتا کی مورتی کی نقاب کشائی کی۔
اپوزیشن نے افتتاحی تقریب کو مودی کی جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کا سیاسی شو قرار دیا ہے،کانگریس رہنماؤں نے تقریب میں شرکت سے معذرت کرلی جب کہ تامل ناڈو حکومت نے رام مندر کی افتتاحی تقریب لائیو نہ دکھانےکا حکم دیا اور مندروں میں رام پوجا پر پابندی عائدکردی۔
1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔
برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کے لیے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔
بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1980 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع کی تھی۔
1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا جب کہ اس دوران 2 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔
حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کے لیےکئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019کو بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد ہندوؤں کے حوالے کردی اور مرکزی حکومت ٹرسٹ قائم کرکے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے مسجد کے لیے مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا۔