ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ کراچی میں قائم ایک تنظیم ہے جو پاکستان میں انسانی حقوق کی وکالت کرتی ہےاور اس نے جمشید حسین کو اس کا چیئر پرسن نامزد کیا ہوا ہے
23 جنوری ، 2024
تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے ملک میں انسانی حقوق کی وکالت کرنے والی ایک آزاد غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے 8 دسمبر کو X جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر ایک غیر معمولی بیان شائع کیا۔
ایچ آر سی پی نے لکھا کہ”ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) واضح کرنا چاہتا ہے کہ یہ کسی بھی طرح سے @HRCPOfficial ہینڈل سے منسلک نہیں ہے جسے ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نامی تنظیم استعمال کر رہی ہے۔“
کمیشن نے تنظیم سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ مخفف ’HRCP‘ استعمال کرنے سے گریز کرے اور مزید کہا کہ 1986 میں اپنے قیام کے بعد سے اس کے مخفف پر اخلاقی حق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا ہے۔
ایچ آر سی پی کی ریسرچ اینڈ کمیونیکیشن لیڈ ماہین پراچہ نے ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ انہیں حال ہی میں ایک تنظیم ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے بارے میں علم ہوا، جب مؤخر الذکر دسمبر میں منعقدہ ایک ایوارڈ تقریب کے بارے میں پوسٹ کرکے اچانک سوشل میڈیا پر سرگرم ہو گئی۔
اس کے فوراً بعد لاہور میں قائم ایچ آر سی پی نے دو پبلک بیانات جاری کیے جس میں پاکستان کی نامعلوم انسانی حقوق کونسل سے درخواست کی گئی کہ وہ HRCP کا مخفف استعمال کرنے سے باز رہے۔
ماہین پراچہ نے کہا کہ ”انہوں نے آج تک ہمیں جواب نہیں دیا۔“
”ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان “ کون، کیا، کہاں ہے؟
اپنی ویب سائٹ پر ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ کراچی میں قائم ایک تنظیم ہے جو پاکستان میں انسانی حقوق کی وکالت کرتی ہےاور اس نے جمشید حسین کو اس کا چیئر پرسن نامزد کیا ہوا ہے۔
ویب سائٹس پر”ہمارے بارے میں“ سیکشن میں لکھا ہے کہ یہ ”دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ“ بنانے کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ اس کے مشن کا بیان اناڑی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے ”ہم دیکھتے ہیں کہ رنگ، نسل، ذات اور مذہب کے نام پر ہر جگہ انسانی حقوق کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ جو لوگ ان موضوعی نکات پر جنونی ہیں انہوں نے دوسروں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا۔“
اس تنظیم کے عملے، افسران، سالانہ رپورٹوں یا مالیاتی آڈٹ رپورٹس کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔
درحقیقت جمشید حسین پاکستان میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں اور غیر منافع بخش اداروں کے لیے نامعلوم ہیں جن سے جیو فیکٹ چیک نے بات کی۔
ایچ آر سی پی کی ماہین پراچہ نے کہا کہ”ویسے بھی جو ہیومن رائٹس کے ادارے ہوتے ہیں وہ چھو ٹے ہوتے ہیں تو لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہم کسی ایونٹ پر گئے ہوں اور وہاں ان کا نام کسی نے لیا ہو کہ جی ہاں [جمشید حسین] وہ یہ کام کر رہے ہیں۔“
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے سینئر کونسل ایشیا ڈویژن سروپ اعجاز جن کا پاکستان میں بطور وکیل اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے کا دو دہائیوں کا تجربہ ہے نے بھی جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ وہ جمشید حسین کے سابقہ کام سے لاعلم ہیں۔
سروپ اعجاز نے مزید سوال کیا کہ تنظیم کی ویب سائٹ پر معلومات کیوں غائب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے گروپ کو اپنے کام میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے دیگر چیزوں کے ساتھ، یہ گروپ کیا کرتا ہے اور اس کے فنڈنگ کے ذرائع کیا ہیں، یہ سب آسانی سے دستیاب ہونا چاہیے۔
یہاں دیگر بے ضابطگیاں بھی ہیں۔
اگرچہ ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے 2020ء میں X پر ایک اکاؤنٹ کھولا تھا لیکن اس نے حال ہی میں اپنی پہلی پوسٹ 21 اگست 2023 کو اپ لوڈ کی جہاں تنظیم نے اپنے ڈپٹی سیکرٹری کوآرڈینیشن کی تقرری کا اعلان کیا۔
ماہین پراچہ نے بتایا کہ انہوں نے نوٹس کیا کہ جیسے ہی HRCP انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو اجاگر کرنے کے لیے ایک بیان جاری کرتی ہے تو ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان اس کے فوراً بعد ایک”اسی طرح کا بیان“ لے کر آجاتی ہے۔
ماہین پراچہ نے کہا کہ انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان عام انتخابات کے دوران ہراساں کیے جانے کے بارے میں آن لائن پوسٹس عام طور پر ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں کرتی ہیں۔
جیو فیکٹ چیک کی تحقیق مطابق یہ سیاسی جماعت سابق وزیراعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف ہے۔
ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے اگست سےلیکر اب تک 1,783پوسٹس کی ہیں، ان میں سے کئی پی ٹی آئی سے وابستہ سیاستدانوں سے متعلق ہیں۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کو نشانہ بنانے کے ریاستی جبر کے واقعات کو پاکستان میں انسانی حقوق کے دیگر گروپوں نے بھی دستاویزی شکل دی ہے لیکن ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے بیانات پارٹی کے تئیں ایک واضح تعصب کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں جو اس بات کے متضاد ہے کہ کس طرح غیر جانبدار اور آزاد انسانی حقوق کے گروپ روایتی طور پر خود کو منظم کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر 26 دسمبر کو اس تنظیم نے پرویز خٹک کے بارے میں پوسٹ کیا جو ایک ایسے سیاستدان ہیں جو پہلے پی ٹی آئی سے وابستہ تھے، اس قیاس کے بعد کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی کا سابقہ انتخابی نشان”بلے “کو پرویز خٹک کی نئی بننے والی سیاسی جماعت کو الاٹ کر رہا ہے۔
ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان نے اپنے
پیج پر پوچھا ”پرویز خٹک کو بلے کا نشان کس نے الاٹ کیا؟پاکستان کی سول سوسائٹی اور عوام پرویز خٹک صاحب آپ سے سننا چاہتے ہیں۔“چیئرپرسن کا کیا کہنا ہے؟
ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے چیئرپرسن جمشید حسین خود کو ایک مزدور کا بیٹا بتاتے ہیں۔
جمشید حسین نے فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایاکہ”میں ایک مزدور کا بیٹا ہوں، میں جیل میں گیا تھا، جیل سے آنے کے بعد میں نے ان چیزوں کو دیکھا ہے، ہم ویلفیئر کے کام تو بہت کرتے ہیں مگر جو اصل کام ہوتے ہیں ان سے بہت دور ہوتے ہیں۔“
جمشید حسین نے بتایا کہ اس کے فوراً بعد 16 مئی 2017 کوانہوں نے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے تحت کراچی میں”ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان“ کے نام سے ایک تنظیم رجسٹر کروائی۔
جمشید حسین کی طرف سے شیئر کی گئی ایک دستاویز کے مطابق ستمبر میں تنظیم کی دوبارہ سرٹیفیکشن یعنی 15 مئی 2025ء تک تجدید کی گئی، جیو فیکٹ چیک نے پاکستان ہیومن رائٹس کونسل کوڈائریکٹوریٹ آف انڈسٹریز سندھ کے ساتھ سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے تحت ایک رجسٹرڈ تنظیم کے طور پر درج پایا۔
جمشید حسین نے مزید کہا کہ جب انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی سرٹیفیکیشن ایجنسی پاکستان سینٹر فار فلانتھراپی (پی سی پی) کے ساتھ رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تو پی سی پی حکام نے ان کی تنظیم کے نام کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، جو ان کے بقول ایک جانے پہچانے ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے نام سے ملتا جلتا ہے۔
جمشید حسین نے اصرار کیا کہ”اب ہر کسی کا اختیار ہے کہ کوئی بھی نام لے لیں، اب ہمارا نام کونسل ہے وہ کمیشن ہیں، کوئی شک نہیں ہے ان[HRCP] کا کام ہے، وہ ہم سے سینئر ہیں۔“
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی تنظیم کے کام بشمول سالانہ یا آڈٹ رپورٹس یا عہدیداروں کی پروفائلز کے بارے میں معلومات کیوں نہ ہونے کے برابر ہیں تو جمشید حسین نے دعویٰ کیا کہ ان کی تنظیم کے پاکستان بھر میں 200-300 سے زائد ارکان ہیں، آفس کے سات عہدیداران اور آزاد جموں و کشمیر(AJK)، سندھ اور خیبر پختونخوا (KP) میں دفاتر ہیں۔
لیکن جمشید حسین نے اس رپورٹ کے شائع ہونے تک جیو فیکٹ چیک کے ساتھ اپنے عہدیداروں کی پروفائلز یا آڈٹ رپورٹس اور یہاں تک کہ آزاد جموں و کشمیر اور خیبر پختونخوا میں اپنے دفاتر کا پتہ بھی شیئر نہیں کیا۔
تاہم انہوں نے میسجزکے ذریعے 2023-2022 کے لیے ان کی تنظیم کی طرف سے شائع کردہ ایک مبینہ ”سالانہ رپورٹ“ شیئر کی۔
عجیب بات یہ ہے کہ 87 صفحات پر مشتمل”سالانہ رپورٹ“ بڑی حد تک ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ تقریبات اور کانفرنسوں کی تصاویر کا مجموعہ ہے جس میں دسمبر میں منعقدہ ایک تقریب بھی شامل ہے جہاں کئی پاکستانی صحافیوں اور یہاں تک کہ ایک فیشن ڈیزائنر’ماریہ بی‘ کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
”سالانہ رپورٹ “ہیومن رائٹس واچ کی 2022ء کی عالمی رپورٹ کے متن کو مزید کاپی پیسٹ کرتی ہے۔
درحقیقت، ”سالانہ رپورٹ“ میں انسانی حقوق کونسل آف پاکستان کی طرف سے مرتب یا تیار کردہ کوئی اصل تحقیقی کام نہیں ہے۔
اس کے باوجود جمشید حسین کا اصرار ہے کہ ان کی تنظیم بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے انتھک کام کر رہی ہے۔
جمشید حسین نے کہا کہ”ہم لوکل ایشوز پر بھی جو بات کرتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کا امیج بہتر جائے لیکن حقائق بتانے کی ہم کوشش کرتے ہیں کہ یہ حقائق ہیں۔“
اضافی رپورٹنگ: محمد بنیامین اقبال