سرکاری ملازمین کو نیب ہراسانی سے بچانے کیلئے نیا میکنزم متعارف

موجودہ چیئرمین اور پنجاب حکومت کے مابین مشاورت سے نئے اقدامات پنجاب میں متعارف کرائے گئے ہیں۔ فوٹو فائل
موجودہ چیئرمین اور پنجاب حکومت کے مابین مشاورت سے نئے اقدامات پنجاب میں متعارف کرائے گئے ہیں۔ فوٹو فائل

اسلام آباد: ایک بڑی پیشرفت کے طور  پر حکومت نے سرکاری نوکروں کو نیب کی غیر ضروری ہراسانی اور  جانبدارانہ گرفتاریوں سے بچانے کے لیے ایک نیا میکنزم متعارف کرایا ہے۔

موجودہ چیئرمین اور پنجاب حکومت کے مابین مشاورت سے نئے اقدامات پنجاب میں متعارف کرائے گئے ہیں جبکہ دیگر صوبے بھی سرکاری افسروں کی جانب سے بہتر کارکردگی اور  فیصلہ سازی کے لیے سرکاری نوکروں کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کے لیے اسی راستے کو اختیار کریں گے۔

پنجاب حکومت نے سینئر سرکاری نوکروں پر مشتمل ایک اسکروٹنی کمیٹی کا اعلان کیا ہے جو ابتدائی تحقیقات کیا کرے گی اور نیب میں کسی سرکاری نوکر کے خلاف مواد کی درستی کا پتہ چلایا کرے گی۔

کمیٹی اپنی سفارشات یا نتائج مجاز حکام کی اجازت کے بعد نیب سے شیئر کریگی، ملازمین کو نیب میں پیشی کا مناسب موقع ملنا یقینی بنایا جائے گا۔

آرمی چیف نے سرکاری ملازموں سے وعدہ کیا تھا، ذرائع کے مطابق موجودہ چیئرمین نیب نے اصلاحات پر آرمی چیف کو آگاہ کر دیا ہے، اسکروٹنی کمیٹی یقینی بنائے گی کہ سرکاری نوکروں کو نیب میں مناسب نمائندگی کا موقع ملے۔

سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 11جنوری 2024 کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کے پنجاب سول سیکریٹریٹ لاہور کے دورے کے دوران اور 4 دسمبر 2023 کو پنجاب میں سول بیوروکریسی سے خطاب کے دوران مندرجہ ذیل اسکروٹنی کمیٹی کا اعلان کیا جاتا ہے۔

اس کمیٹی میں سیکریٹری سروسز، ایس اینڈ جی اے ڈی، کنوینر ہوں گے، سیکریٹری (نفاذ و رابطہ کاری) ایس اینڈ جی اے ڈی ہوں گے جبکہ سیکریٹری لا اینڈ پارلیمنٹری افیئرز ڈپارٹمنٹ کے علاوہ کوئی اور رکن جسے کمیٹی خود سے چنے وہ اس کے رکن ہوں گے۔

اس اسکروٹنی کمیٹی کے ٹی او آرز مندرجہ ذیل ہوں گے۔

1۔ نیب کو کسی سرکاری نوکر کے خلاف شکایت ملنے پر اس شکایت کے مواد کی درستی کے حوالے سے ابتدائی تحقیقات ( یہ کمیٹی ) کرے گی۔

2۔ ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے پر یہ کمیٹی اپنی سفارشات یا نتائج مجاز حکام کی اجازت سے نیب کے ساتھ شیئر کریگی۔

3۔ یہ یقینی بنائے گی کہ سرکاری نوکروں کو نیب میں سماعت اور پیشی کا مناسب موقع ملے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ نیا میکنزم بنانے کا مقصود سرکاری نوکروں کے اعتماد کو بڑھانا ہے جو ماضی میں نیب کی ہراسانی کی وجہ سے معمول کے فیصلے لینے سے ہچکچاتے تھے۔

اگرچہ نیب پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی کو غلط استعمال کرتی رہی ہے تاہم اپنے آغاز سے لے کر، اور سابق چیئرمین جاوید اقبال کے دور تک نیب سیاستدانوں اور نوکر شاہی پر بے رحم رہا ہے۔

نہ صرف یہ کہ اعلیٰ احترام کے حامل بیوروکریٹس کو گرفتار کیا گیا اور مہینوں بلکہ برسوں تک جیل میں رکھا گیا۔ ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات کھولے گئے جن میں ان اعلیٰ بیوروکریٹس کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھے اور ان میں بہت سے وفاقی و صوبائی سیکریٹریز جیسے اعلیٰ بیوروکریٹس بھی شامل تھے۔

ان میں سے زیادہ تر مقدمات میں عدالتوں نے ان سرکاری نوکروں کے خلاف نیب کی کارروائی کیلیے کوئی معقول حقائق نہیں پائے اور نیب کے عہدیداروں کی صلاحیتوں کے حوالے سے سوال اٹھائے کہ آیا وہ سرکاری نوکروں کے کام کی بنیادوں کو سمجھتے ہیں کہ نہیں۔ سول نوکر شاہی کی ہراسانی کی وجہ سے حکومت کا کام اور اس کی فیصلہ سازی پر سنگین ضرب پڑی تھی اور اس کے نتیجے میں حکومتی کارکردگی متاثر ہوئی۔

سرکاری نوکر معمول کے پالیسی فیصلے لینے سے بھی کترانے لگے۔ اسی لیے یکے بعد دیگرے آنے والے وزرائے اعظم اور حتیٰ کہ آرمی چیفس نے بھی گزشتہ کئی برسوں سے نیب کی جانب سے نوکر شاہی کو ڈرانے اور اس کے حکومتی کارکردگی پر منفی اثرات کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔

تاہم اس احساس اور وعدوں کے باوجود نیب کو سرکاری نوکروں سے متعلق ملنے والی شکایات پر کوئی میکنزم نہیں بن سکا تھا۔ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے دیگر سرکاری نوکروں کے ساتھ اپنے رابطوں میں وعہد کیا تھا کہ وہ نیب کے اختیارات کے غلط استعمال کو رکوائیں گے تاکہ سرکاری نوکروں کی فیصلے کرنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کی جاسکے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ موجودہ نیب چیئرمین نے نیب میں اصلاحات لانے کے حوالے سے آرمی کے سربراہ کو آگاہ کردیا تھا تاکہ ناانصافیوں اور بالخصوص سرکاری نوکروں سے ہونی والی ناانصافیوں کی روک تھام ہو سکے۔

نیب کی موجودہ مینجمنٹ صرف شکایات کی بنیاد پر گرفتاریوں والی ماضی کی پالیسیوں پر عمل نہیں کر رہی۔

اس کے بجائے مشکل سے ہی کوئی ایسا سرکاری نوکر ہوگا جسے اس دور میں گرفتار کیا گیا ہو اور یہ یقینی بنایاجارہا ہے کہ صرف ان مقدمات کی پیروی کی جائے جن میں ٹھوس شواہد دستیاب ہوں۔

مزید خبریں :