بلاگ
Time 07 فروری ، 2024

بنگلہ دیش ماڈل آرہا ہے؟

معلوم نہیں حتمی طور پر کیا ہوگا مگر فی الحال یہ طے ہوا ہے کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرح مستحکم سیاسی حکومت قائم کی جائے گی اور اسے مقتدرہ کی مکمل مدد و حمایت سے دس سال تک چلایا جائے گا۔ 

مقصد یہ ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد نے اداروں کی مدد سے اپنے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے اسکی پیروی کی جائے تاکہ پاکستان بھی معاشی اور سیاسی طور پر اپنے قدموں پر کھڑاہو سکے۔ شروع میں اداروں کا اندازہ تھا کہ اگلی حکومت مخلوط ہوگی جس میں ن لیگ کو وزارت ِعظمیٰ اور پیپلزپارٹی کو صدارت ملے گی مگر اب بنگلہ دیش ماڈل اور مستحکم حکومت کے آئیڈیا کی پیروی کرتے ہوئے مخلوط حکومت نہیں بنے گی بلکہ مسلم لیگ ن اور چند چھوٹی سیاسی جماعتوں کے تعاون سے وفاقی حکومت بنے گی۔ 

پیپلزپارٹی وفاق میں اپوزیشن میں بیٹھے گی، یہ الگ بات ہے کہ زرداری صاحب مفاہمت کا کوئی نیا کارڈ کھیل کر گیم بدل دیں۔ اداروں کا اندازہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں ن لیگ بآسانی 100 سے 110 نشستیں جبکہ پیپلز پارٹی 50سے 55 نشستیں لے گی ۔نواز شریف وزیراعظم ہونگے شہباز شریف بھی وفاق میں ہی اپنے بھائی کی معاونت کریں گے وہ خاص طور پر مقتدرہ سے رابطہ کار کے فرائض انجام دینگے۔ پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی ن لیگ کے حصے میں آئیں گی ۔ن لیگ کی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی امیدوار مریم نواز شریف ہیں، اداروں میں ابتدائی طور پر مریم نواز کے نام پر کچھ مزاحمت تھی لیکن شنید ہے کہ مضبوط اور مستحکم وفاق اور پنجاب بنانے کیلئے اسی نام پر اتفاق ہوگیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت واضح طور پر بنتی نظر آرہی ہے جبکہ خیبر پختونخواہ میں ابتدائی طور پر تحریک انصاف کی اکثریت ہوگی مگر بعدازاں پرویز خٹک یا کسی اور مہربان کا قرعہ فال نکلے گا پہلے تحریک انصاف کا وزیراعلیٰ بن سکتا ہے اگر اس نے مزاحمتی رویہ اپنایا تو اسے رخصت کر دیا جائے گا۔

اس سرکاری خاکہ کے مطابق تحریک انصاف کہاں کھڑی ہوگی؟ سرکاری حکمت عملی یہ ہے کہ جہاں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا محال ہے جیسے میانوالی، وہاں کوئی مداخلت نہ کی جائے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو جیتنے دیا جائے یہی حکمت عملی خیبرپختونخواہ میں اختیار کی گئی ہے ۔

لاہور کے بارے میں پہلے اندازہ تھا کہ ن لیگ 8 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 6 نشستیں جیتیں گے اب سرکار کو یہ لگ رہا ہے کہ ن لیگ لاہور کی 1 0نشستوں پر لیڈ کررہی ہے جبکہ 4نشستوں پر اب بھی تحریک انصاف کا پلہ بھاری نظر آرہا ہے، پی ٹی آئی کے بہت سے حمایت یافتہ جو آزادی سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں ان کی پہلے سے بات ہو چکی ہے اور وہ سرکار سے وعدے وعید کر چکے ہیں۔ سرکار کے حلقے پی ٹی آئی کے اس دعوے کو بھی ماننے پر تیار نہیں کہ 8 فروری کو لوگوں کا اژدھام باہر نکل کر سب سرکاری منصوبے تہہ خاک کر دے گا، ان کا خیال ہے کہ 9 مئی کے بعد پورے پنجاب میں ایک بھی بڑا اجتماع اور احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا جذباتی بیانات صرف روپوش اور بیرون ملک محفوظ مقامات پر بیٹھے لوگوں کی طرف سے آرہے ہیں۔ سرکار کا یہ بھی خیال ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو دی گئی سزائوں کے بعد کہیں احتجاج نہیں ہوا، کہیں لوگ باہر نہیں نکلے۔ 

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی عدم موجودگی کی وجہ سے انکے حامیوں میں جو جنون 2018ء کے الیکشن میں نظر آتا تھا وہ اب کہیں نہیں ہے، انکی رائے ہے کہ پچھلی بار بیرون ملک سے بہت سے پاکستانی ووٹ ڈالنے آئے تھے اس بار کوئی نہیں آیا اور پہلے جن لوگوں کا خیال تھا کہ خان آئے گا تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی ان کے خواب بھی ٹوٹ چکے ہیں، ایسے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ جیت بھی گئے تو وہ آسانی سے ٹوٹ جائیں گے، وفاداروں کا البتہ ایک مختصر سا گروپ ضرور موجود رہے گا جو قومی اسمبلی میں شور شرابا کرتا رہے گا۔ یہاں تک تو سرکاری منصوبوں کی کہانی تھی اب آئیے ایک صحافی کی حیثیت سے اس تھیوری کا ناقدانہ جائزہ لیں ۔

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کو عدلیہ مقتدرہ اور لبرل طبقات کی سپورٹ حاصل رہی جس سے اس نے بنگلہ دیش کی برآمد کو بڑھا دیا ، گارمنٹس کی برآمد میں بنگلہ دیش نے نئے ریکارڈ قائم کئے مگر حالیہ متنازع انتخابات اور خالدہ ضیاء کی اپوزیشن کے ہنگاموں، مظاہروں اور ہڑتالوں سے بنگلہ دیشی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بنگلہ دیش کی تمام جماعتوں میں انڈر سٹینڈنگ ہے کہ اگر ہڑتال بھی جاری ہو اور کسی غیر ملکی کی نشان زدہ ہارن والی گاڑی آ جائے تو سب اسے راستہ دے دیتے ہیں، دوسری طرف بنگلہ دیش کی عدلیہ اور مقتدرہ نے حکومت کی طرف سے مذہبی انتہا پسند ختم کرنے کیلئے سخت ترین اقدامات کئے ہیں، پاکستان کی حمایت کرنے اور بنگالیوں کے خلاف کام کرنے پر جماعت اسلامی کے کئی رہنمائوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے، کیا پاکستان میں مقتدرہ اور عدلیہ، سیاسی حکومت کے ساتھ اس حد تک چل سکے گی؟ 

یہاں تو ہر تین سے چھ سال میں مقتدرہ کی، اور چیف جسٹس کے بدلنے سے عدلیہ کی پالیسی تبدیل ہو جاتی ہے، آج تو کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ اور مقتدرہ طویل المدتی طورپر اکٹھے چل کر معاشی ترقی پر کام کریں گے لیکن ابھی سے مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ ہمارے آرمی چیف صاحب بھارت کو سازشی دشمن سمجھتے ہیں جبکہ نواز شریف صاحب بھارت سے دوستی کرنا چاہتے ہیں، اب اس خلا کو کون پُر کرے گا؟

 فی الحال تو ن لیگ اور مقتدرہ میں عمران خان اور تحریک انصاف کو دبانے پر اتفاق ہے لیکن کل کو کوئی احتجاجی تحریک چل نکلی اور حکومت اس کو ریلیف دینے پر مجبور ہوگئی تو مقتدرہ کا ردعمل لازماً نفی میں ہوگا ۔دراصل پاکستانی مقتدرہ اپنی خواہش پر یا مجبوری میں ریاست کے معاملات میں اس قدر اثرپذیر ہو چکی ہے کہ اس کا ریاستی فیصلوں سے باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہے، وزارت خارجہ اور مقتدرہ کی ماضی میں خارجہ امور کی پالیسیوں پر متضاد رائے ہوا کرتی تھی اب وزارت خارجہ میں مقتدرہ سے اختلاف رکھنے والے افسر دور دور تک نظر نہیں آتے حالانکہ ریاست میں ا گر اختلاف رائے نہ ہو تو اچھی پالیسی نہیں بنتی، دو آرا سن کر ہی بہتر فیصلے تک پہنچا جا سکتا ہے، امریکہ میں پینٹاگان اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اکثر اختلاف رائے ہوتا ہے بالآخر امریکی صدر دونوں آرا سننے کے بعد فیصلہ کرتا ہے یہاں بھی حتمی فیصلوں کا اختیار وزیر اعظم کو ہونا چاہئے۔

آخر میں عرض ہے کہ سیاسی استحکا م کیلئے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو الیکشن کے بعد ہی سہی ریلیف ملے اور ان کے لاکھوں کروڑوں ووٹوں کی نمائندگی بھی پارلیمان میں ہو ۔تحریک انصاف کو بھی بیرسٹر گوہر علی کے اعتدال پسند رویے کی پیروی کرتے ہوئے اینٹی آرمی اور اینٹی ریاست بیانیے کو ختم کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف ریاست اور فوج کی اسٹیک ہولڈر ہے، گالیوں،نفرت اور بغاوت کی پالیسیوں سے اس کا اپنا نقصان ہو رہا ہے، بغاوت کامیاب ہو سکتی تو 9مئی کو ہو جاتی، اب یہ خیال ذہن سے نکال دیا جائے اور ایک معتدل سیاسی جماعت کی طرح کام کیا جائے۔

نواز شریف اس وقت ملک کے سب سے تجربہ کار سیاستدان ہیں، انہیں مشورہ ہے کہ وہ ماضی کی زیادتیوں کو بھلا کر کھلے دل سے قوم کو متحد کرنے کی کوشش کریں انتقام کے لامتناہی دائرے کو توڑیں کیونکہ انتقام سے مزید انتقام جنم لیتا ہے معافی اور مصالحت سے امن پیدا ہوتا ہے اور بہتر راستہ مصالحت اور امن کا ہی ہوتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔