مولانا کا انکشافات پر مبنی انٹرویو،حقائق پرسوالیہ نشانات؟

مولانا فضل الرحمان اپنے انٹرویو میں 26 مارچ 2022 کو جنرل باجوہ سے ملاقات کا ذکر کر تے ہیں، لیکن انہوں نے تحریک عدم اعتماد واپس لینے کو کہا تھا۔ فوٹو فائل
 مولانا فضل الرحمان اپنے انٹرویو میں 26 مارچ 2022 کو جنرل باجوہ سے ملاقات کا ذکر کر تے ہیں، لیکن انہوں نے تحریک عدم اعتماد واپس لینے کو کہا تھا۔ فوٹو فائل

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق مولانا فضل الرحمان کے تازہ دعووں پر نئے سوال پیدا ہوگئے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان اپنے اس انٹرویو میں 26 مارچ 2022 کو جنرل باجوہ سے ملاقات کا ذکر کر رہے ہیں، اس وقت جنرل فیض حمید آئی ایس آئی میں نہیں تھے۔

ذرائع کےمطابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ان دنوں کور کمانڈر پشاور بن چکے تھے اور اس ملاقات میں شامل بھی شامل نہیں تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کی جنرل باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم سے جو ملاقات ہوئی تھی اس میں بلاول بھٹو اور دیگر رہ نما بھی موجود تھے، یہ ملاقات آئی آئی ایس آئی میس مارگلہ روڈ اسلام اباد میں ہوئی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں اختر مینگل، شاہ زین بگٹی، ایم کیو ایم کے خالد مقبول اور دیگر بھی موجود تھے، ملاقات میں جنرل باجوہ نے اپوزیشن رہنماؤں سے بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا کہا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ ملاقات میں جنرل باجوہ نے اپوزیشن کو پیشکش کی تھی کہ تحریک واپس لینے کی صورت میں وزیر اعظم مستعفی ہوکر انتخابات کا اعلان کریں گے تاہم اس ملاقات میں بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان نے تحریک عدم اعتماد واپس لینے سے انکار کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ نجی ٹی وی کو دیےگئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے  انکشاف کیا تھا کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ باجوہ کےکہنے پر لائی گئی۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید رابطے میں تھے،فیض حمید ان کے پاس آئے اور کہا جو کرنا ہے سسٹم کے اندر رہ کر کریں، جنرل ریٹائرڈ باجوہ اور فیض حمیدکےکہنے پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مہر لگائی، میں خود عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا۔

مزید خبریں :