Time 20 فروری ، 2024
پاکستان

(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی میں مذاکرات، گورننس بڑے مسائل میں شامل

گورننس کا معاملہ اس بات کو واضح کرنے کیلئے زیر بحث لایا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس کارکردگی دکھانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں: ذرائع/ فائل فوٹو
گورننس کا معاملہ اس بات کو واضح کرنے کیلئے زیر بحث لایا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس کارکردگی دکھانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں: ذرائع/ فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت کی تشکیل کیلئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں سب سے بڑے ایشوز میں گورننس کا معاملہ زیر بحث آیا ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات پر بحث و مباحثہ ہوا ہے کہ نئی حکومت کی توجہ گورننس پر ہونی چاہئے اور اسے بہتر ہونا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹا نہیں جا سکتا۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا احساس پایا جاتا ہے کہ سیاسی جماعت یا جماعتیں طرز حکمرانی میں مزید کوتاہی کی متحمل نہیں ہو سکتیں، اس بات پر بحث ہوئی ہے کہ ملکی معیشت کو بڑی اصلاحات کے بغیر درست نہیں کیا جا سکتا، سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اور کاروباری طبقے کی مخالفت کے باوجود ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا، نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی نجکاری بغیر کسی سیاسی مداخلت کے کرنا ہوگی، توانائی اور گیس کے شعبے میں بڑھتے قرضہ جات خراب طرز حکمرانی کا نتیجہ ہیں۔

مباحثے میں شامل ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ گورننس کا معاملہ اس بات کو واضح کرنے کیلئے زیر بحث لایا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس کارکردگی دکھانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں، ماضی کی طرح سرکاری اداروں میں مشکوک بھرتیوں اور معاشی معاملات پر سیاست کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا۔

حکومت میں شامل ایک ماہر معیشت نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو اپنی تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے، گزشتہ دو سال کے دوران جس قدر مہنگائی ہوئی ہے اس کا سامنا ملک کو پہلے کبھی نہیں ہوا، مسلسل دوسرے سال بھی کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) 30؍ فیصد کو چھو رہا ہے اور کچھ مہینے ایسے بھی تھے جن میں یہ انڈیکس 38؍ فیصد تک جا پہنچا تھا۔

اس مسلسل مہنگائی کی وجہ سے شرح سود کو بڑھا کر 22؍ فیصد کردیا گیا اور جب تک مہنگائی کم نہیں ہوگی اس وقت تک یہ شرح اسی حد پر رہے گی۔ بھاری شرح سود کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ قرضے بڑھ رہے ہیں اور قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بھی اس قدر بڑھ رہا ہے کہ یہ تیزی سے ناقابل برداشت ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال کی ادائیگیوں کا تخمینہ 8.6؍ کھرب روپے ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے آمدنی کا تخمینہ 12؍ کھرب روپے لگایا گیا ہے، وفاقی ریونیوز میں صوبوں کا حصہ (تقریباً 5.4؍ کھرب روپے) ادا کر دینے کے بعد مجموعی آمدنی 6؍ کھرب روپے رہ جائے گی۔

سود کی ادائیگیوں کے لحاظ سے دیکھیں تو 2؍ کھرب روپے کی کمی درپیش ہے، جب سود کی ادائیگی مزید قرض لیکر ادا کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت کے باقی ماندہ اخراجات بھی قرضے لیکر پورے کیے جائیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ بڑھتی شرح سود کے ساتھ بجٹ خسارہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور یہ جی ڈی پی کا 9؍ فیصد ہے، 106؍ کھرب روپے کی جی ڈی پی کے ساتھ خسارہ 9.5؍ کھرب روپے ہوگا، اگر اس رقم کو 365؍ دن کے ساتھ تقسیم کیا جائے تو خسارہ یومیہ 26؍ ارب روپے بنتا ہے۔

سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر پاور اور گیس سیکٹر کے نقصانات اور سرکاری اداروں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو خسارے میں شامل کیا جائے تو اس سے بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 10؍ فیصد (10.6؍ کھرب روپے) ہو جائے گا۔

دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نگراں حکومت نے زرمبادلہ کی منڈی میں قیاس آرائیوں، اسمگلنگ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ جیسی بڑی خرابیوں کو دور کرکے معیشت کو مستحکم کیا ہے اس سے کاروبار کیلئے اعتماد میں نمایاں اضافہ ہوا، اسٹاک مارکیٹ میں غیر معمولی بہتری آئی، زر مبادلہ کی شرح مستحکم جبکہ ادائیگیوں کا توازن بھی بہتر ہوا۔

ذریعے کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ اس ریلیف کے باوجود نئی حکومت کو ملک کے بیرونی کھاتے میں مالیاتی فرق کو پورا کرنے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت آخری جائزے کو مکمل کرنے کے علاوہ، مارچ 2024 سے آگے فنانسنگ گیپ کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہوگی جو نئی حکومت کو سخت دباؤ میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اس پروگرام میں کفایت شعاری کے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

مزید خبریں :