20 فروری ، 2024
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کرکے اِس شعر کے معنی خوب سمجھا دیے ہیں جس میں مرزا جواں بخت جہاں دار نے کہا تھا کہ
آخر گِل اپنی، صرفِ درِ میکدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا
شعر کے لفظی معنی تو یہ ہیں کہ آخر میرا وجود شراب خانے کے دروازے پہ جا کر ہی مِٹا کیونکہ جسم کی یہ مٹی وہیں گوندھی گئی تھی۔
ملک کے مایہ ناز ترین کرکٹرز میں سے ایک عمران خان کی سیاسی مٹی جب گوندھی جارہی تھی، اس وقت بھی سیانے یہی کہتے تھے کہ کپتان کو روایتی سیاستدانوں کیخلاف ایک خاص مقصد کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔
قیام پاکستان سے اب تک مذہبی جماعتوں کو عوام نے کبھی کاندھوں پر نہیں بٹھایا۔ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ابھی وہ نسل باقی ہے جس نے اگر دیکھا نہیں تو کم سے کم اپنے والدین سے سُنا ضرور ہے کہ ملک کی سرکردہ مذہبی جماعتوں نے قیام پاکستان کی پُرزور مخالفت کے لیے کیا الفاظ استعمال کیے تھے اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو کن کن القابات سے نوازا تھا۔
عوام کی خوش نصیبی دیکھیے کہ انہی مذہبی جماعتوں کو قدرومنزلت ملی یا دی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد مذہبی جماعتوں کی سب سے پہلے ضرورت شاید پنجاب میں محسوس کی گئی تھی کیونکہ مختلف نظریات کی حامل مقامی پارٹی کااثر زائل کرنا تھا۔
تاریخ داں ہی مختلف عشروں میں مذہبی جماعتوں کے بڑھتے یا بڑھائے گئے اثر ورسوخ پر روشنی ڈال سکیں گے اور اس پر بھی کہ ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ بھی کہ بنگلادیش بننے کے بعد پاکستان کے اس حصے میں مذہبی جماعتوں کی تعداد اور طاقت میں ہرگزرتے عشرے اضافے کی وجوہات اور اس کے ثمرات کیا رہے؟
یہ خود ایک اہم سوال ہے کہ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو جِلا کیوں ملی؟ تاہم یہ حقیقت ہے کہ عوام نے آج تک کسی مذہبی سیاسی جماعت کو وزارت عظمی نہیں بخشی۔
انیس سو چھیانوے میں جب پراجیکٹ عمران خان باضابطہ لانچ کیا گیا تو یہ وہ دور تھا جب ملک دو سرکردہ سیاسی جماعتوں یعنی سینٹر لیفٹ پیپلزپارٹی اورسینٹر رائٹ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی محاذ آرائی کا شکار تھا۔
کرپشن ختم کرنے اور سماجی بہبود کو فروغ دینے کے پُرکشش نعروں سے پروان چڑھائی گئی تحریک انصاف بظاہر ایسا پودا تھا جو اس زرخیز ماحول میں تناور درخت بن سکتا تھا۔ اس کے باوجود تقریباً دوعشرے گزرے تو کہیں جا کر اس درخت کی ڈالیوں پر کچھ پھول پتے نظر آنے شروع ہوئے تھے۔
پھراچانک غول در غول پنچھیوں کی اُڑانیں شروع ہوئیں، ہنکائے گئے یا خود سے اُڑے پرندوں نے اپنے اڈوں پہ موجود دانا دنکے کو حقیر کہہ کر لات ماری اور نئی مچان کی راہ لی۔
ملک میں یہ تیسری قوت لایا کون، ان کے ناموں سے تو سب ہی واقف ہیں۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ جب عمران خان نے طالبان کی کھل کر حمایت کی اور پھر ریاست مدینہ بنانے کا سہانا خواب دکھایا تو جو عقلمند تھے، انہوں نے لوگوں کو اسی وقت خبردار کیا کہ جس مٹی سے پی ٹی آئی کا خمیر اٹھایا گیا ہے، یہ خاک کِس دہلیز تک جائے گی۔
تحریک انصاف کے حامیوں کے لیے یہ ماننا اس لیے مشکل تھا کہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں مڈل کلاس ہی نہیں امیر طبقے کے ماڈرن نوجوان مرد اور عورتیں بھی بھرپور شرکت کرتے تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ مغربی برانڈ کے کپڑے اور جوتے پہننے والے عمران خان اپنی وضع قطع سے کہیں سے بھی مُلا نظر نہیں آتے تھے۔لحاضا اُس طبقے کے لیے پی ٹی آئی معتدل نظریات کی حامل پارٹی تھی۔
عمران خان نے جب بحثیت وزیراعظم پاکستان اسامہ بن لادن کو شہید کا درجہ دے ڈالا، اس وقت بھی قوم کا ایک طبقہ یہ معاملہ جذباتی سمجھ اور امریکا مخالفت میں ہضم کرگیا تھا ورنہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں ہی کے رہنماؤں نے اسامہ کو دہشتگرد اور پاکستان کے امیج کو دنیا میں داغدار کرنے کا سبب قرار دیا تھا۔
ماضی کو پھر کبھی کریدیں گے، حالیہ انتخابات کی بات کرتے ہیں جس میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کی تعداد فی الوقت بانوے ہے ۔چنانچہ پی ٹی آئی کے حامی بحثیت سیاسی جماعت سب سے زیادہ یعنی 79 نشستیں لینے والی ن لیگ کوکہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ بے شک ان منتخب اراکین کو حکومت بنانے کے لیے کسی سیاسی پارٹی کی چھتری چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کو کیا مذہبی سیاسی جماعت ہی کی چھتری تلے آنا تھا یا کسی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہوا جاسکتا تھا؟
آخرکچھ تو ہے جوپہلے عمران خان نے جیل سے ہاتھ پھیلا کر بانہیں اُن مولانا فضل الرحمان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی جنہیں'ڈیزل' کے نام سے پکار کر تمسخر اڑاتے تھے۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ اب کپتان نے اپنے پنچھیوں کو سنی اتحاد کونسل کا رُخ کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
بحثیت سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو پورا حق ہےکہ وہ اپنے امیدواروں کو کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کا حصہ بنائے مگر یہ صورتحال پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
یہ حکمت عملی علامت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پیروں سے زمین تیزی سے کھسک رہی ہے یا کھسکائی جارہی ہے۔لبرل سیاسی جماعت اے این پی اس کی مثال ہے۔
حکومت سازی کے امور میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں لاکھ اختلافات سہی، دونوں نے ایک دوسرے کے بازو مضبوط نہ کیے تو زیادہ وقت نہیں کہ ان کی حالت بھی اس مصرعے کے مصداق ہوگی کہ 'تمھاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔