بلاگ
Time 26 فروری ، 2024

بانی متحدہ، بانی پی ٹی آئی، بانی ن لیگ، بانی ۔۔؟

پاکستان کی سیاست میں مائنس ون فارمولے پرعمل میں پچھلے سات برسوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ اس فارمولے کو مائنس ٹاپ ون یا مائنس بانی سیاسی جماعت کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ابھارے گئے بانی متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین کا سحرکراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کی مہاجر آبادی پرآج بھی کسی نہ کسی طرح قائم ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تین عشروں میں جو جلسے کیے گئے یا ریلیاں نکالی گئیں، انکی مثال پھر کبھی نہیں ملی۔

حالیہ الیکشن میں بے دلی سے انتخابی مہم چلانے کے باوجود ایم کیوایم کو قومی اسمبلی کی سترہ اور صوبائی اسمبلی کی اٹھائیس نشستیں لاکھ مل گئی ہوں مگر خود متحدہ کے سرکردہ بعض افراد بھی اس صورتحال پر بلاتامل کہتے ہیں کہ ایسا تو بالی ووڈ کی فلموں میں بھی نہیں ہوتا۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مخالفین کیخلاف گالم گلوچ کا جو کلچر بانی پی ٹی آئی نے متعارف کرایا تھا، اسکی عشروں پہلے بنیاد ایک مختلف انداز سے ایم کیوایم نے رکھی تھی۔ یہ انیس سو اسی کا دورتھا جب بانی ایم کیوایم کو الطاف حسین کہنے والے بزرگ کو اسی محلے کا اٹھارہ سال کا نوجوان یہ کہہ کر تھپڑ جڑ دیتا تھا کہ الطاف حسین نہیں،الطاف بھائی کہو۔

یہ بھائی لوگوں کا کلچرمہاجروں کا کلچر تھا نہیں، مہاجروں کا کلچروہ تھا کہ محلے کے بڑے مرد کو آتا دیکھ کر سگریٹ پینے والے نوجوان دھواں منہہ سے باہر نکالنا بھول جاتے تھے،سگریٹ ہاتھ سے چھوٹ جاتی تھی۔ یہ لاشعوری طورپر ہوتا تھا کہ بڑے کو آداب کیا جاتا یا کم سے کم احتراما سرجھکا لیا جاتا۔

پاکستانی فلموں میں محمد علی ہوں، ندیم یا وحید مراد یہ سب امی جان آداب، ابوجان آداب کہا کرتے تھے،مہاجر گھرانوں میں سلام علیکم کا کلچر بعد میں وارد ہوا جب ملک میں مذہبی ٹچ دینے کی روایات پروان چڑھانا شروع کی گئیں۔

اپنوں سے بغاوت کا جو کلچرالطاف حسین نے پھیلایا تھا،اسکا نتیجہ نکلنا تھا،۔وہی نوجوان جو محلے کے بزرگ کو تھپڑ رسید کردیتا تھا، اس نے بندوق اٹھائی اوراپنے ہی محلے میں دکانیں بندکرائیں،پھرکراچی ایک اشارے پر سوئچ آن اور سوئچ آف ہونے لگا۔لاشوں کی سیاست ہوئی،پہلے پولیس،پھر رینجرز اور حد یہ کہ فوج کیخلاف ہتھیار اٹھائے گئے۔

بانی ایم کیوایم مائنس نہ کیے جاتے تواس میں دورائے نہیں کہ پاکستان کا ایک حصہ ابتک ضرور مائنس ہوگیا ہوتا۔ جو لوگ نوے کی دہائی میں کیے گئے آپریشنز سے بچ کر بیرون ملک بھاگے تھے،وہ یہی کہتے تھے کہ لڈو وہ کھائےگا جوزندہ بچ جائےگا۔ان میں سے کئی آج بھی زندہ ہیں مگر شکرادا کرنا چاہیے کہ جس بات کے لڈو وہ کھانا چاہتے تھے،وہ انہیں نصیب نہیں ہوئے۔

وہ لیڈر جس کی سیاسی جماعت سے اتحاد کے لیے اسکے ایک سو بیس گز کے آستانے نائن زیرو پر ملک کی صف اول کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو آنا پڑتا تھا، آج اپنے اعمال کے سبب بے نامی کی زندگی گزارنے پرمجبورہے۔اور مہاجروں کی ایک بڑی تعداد سکھ کا سانس لے رہی ہے کہ آئے دن کی ہڑتالوں،بھتہ خوری،دھونس،دھمکی، چائنا کٹنگ اورقربانی کی کھالیں مانگنے والوں سے جان چُھٹی۔

بانی مسلم لیگ ن کا معاملہ مختلف ہے۔میاں نوازشریف کا سیاسی کیرئیر جنرل ضیا الحق کی دین سہی،انہوں نے اشاروں پر آئی جے آئی میں لاکھ مرکزی کردار نبھایا ہو،مگرنوازشریف کا الطاف حسین سے کوئی موازانہ نہیں۔ وہ اس ایٹمی پروگرام کو حقیقت کا روپ دینے والی شخصیت ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو شہید نے شروع کیا تھا۔

نوازشریف کوپنجاب کی ترقی کی علامت تسلیم کیاجاتا ہے،ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر لانے کا سبب گردانا جاتا ہے۔پانچ سال کے لیے منتخب اس شخص کی حکومت کا تختہ کبھی دوسال میں الٹا جائے یا کبھی اسے الزامات کاشکار بناکرمسند سے محروم کیا جائے تو وہ کب تک خاموش رہتا؟

شہبازشریف کی اہلیت کا معیار یا بنیاد اپنی جگہ، مسلم لیگ ن کا مطلب شہبازشریف ہے نہ مریم نواز، اسکا واحد مطلب نوازشریف ہے۔ملکی سیاست کیلیے یہ بات الارمنگ ہے کہ اس کے بانی نون لیگ کو اس بار انتہائی چابک دستی سے مائنس کردیا گیا ہے۔

مائنس اس بانی پی ٹی آئی عمران خان کو بھی کیا گیا ہے جس کے سیاسی پتلے میں دوعشروں کی محنت سے جان ڈالی گئی تھی۔ سانحہ نو مئی کا دہشت ناک یعنی ملکی تاریخ کے سیاہ ترین ایام میں سے ایک لمحہ اپنی جگہ، حالیہ الیکشن نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان کو لاکھ جیل میں ڈالا جائے، یہ روح عوام کے بڑے حلقے میں منتقل ہوگئی ہے۔میتھیمیٹکس کے حساب سے دیکھیں تو وہ مائنس مائنس کیے جانے سے پلس ہوگئے۔

زرا تصور کیجیے کہ آصف علی زرداری کیا زیرک شخصیت ہیں جنہوں نے ریکارڈ عرصہ جیل میں گزارا،تشدد سہا،ایک آمر کے دور میں بے نظیربھٹو کو دہشگردوں نے مائنس کردیا، مگر پیپلزپارٹی کے رہ نما نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر صبر کا دامن تھامے رکھا۔

ایک وقت ضرور آیا کہ سابق صدر نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی مگر نام کسی کا نہیں لیا،شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بار پھر صدر پاکستان بننے جارہےہیں اورانکی سرپرستی میں بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کی قیادت کررہے ہیں۔

قیادت نئی پیڑھی کو منتقل ہونا فطری عمل ہوتویہ ارتقا کہلاتا ہے۔تبدیلی مسلط کرکے سیاسی جماعتوں میں نوجوان قیادت ابھاری جائے تو اسکا جو نتیجہ نکلتا ہے،اسکے اثرات کئی یورپی ممالک میں دیکھے جاسکتےہیں۔

سیانے اسی لیے کہتے ہیں،پرانے چاول کی اپنی بات ہے۔ مگر ایک ہم ہیں کہ تاریخ سے یہی سیکھا ہے کہ کچھ نہ سیکھا جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔