Time 28 فروری ، 2024
پاکستان

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر فیصلہ محفوظ

علی ظفر، بیرسٹر گوہر، فروغ نسیم، اعظم نذیر تارڑ، فاروق نائیک، کامران مرتضیٰ، فاروق نائیک اور دیگر نے الیکشن کمیشن میں دلائل دیے/ فائل فوٹو
علی ظفر، بیرسٹر گوہر، فروغ نسیم، اعظم نذیر تارڑ، فاروق نائیک، کامران مرتضیٰ، فاروق نائیک اور دیگر نے الیکشن کمیشن میں دلائل دیے/ فائل فوٹو

اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ 

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر سماعت کی جس سلسلے میں علی ظفر،  بیرسٹر گوہر، فروغ نسیم، اعظم نذیر تارڑ، کامران مرتضیٰ، فاروق نائیک اور دیگر نے دلائل دیے۔

سنی اتحا دکونسل کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےکل آرڈر کیا کہ تمام درخواستوں کو یکجا کرنا ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کو نوٹس کیا جائے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ رات کو نوٹس کریں اور صبح جماعتیں تیار ہوں، اس سماعت کو معنی خیز کریں۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سب جماعتوں کو نہیں اسمبلی کی متعلقہ جماعتوں کو بلایا ہے، علی ظفر نے جواب دیاکہ الیکشن کمیشن کا آرڈر بے معنی نہیں ہوسکتا ،ایم کیو ایم نے کہا ہمیں سندھ اسمبلی میں نشستیں دی جائیں، آج میری درخواست سماعت پر پہلے نمبر پر لگی ہے، آپ نے میری درخواست کوالتوامیں رکھا، جب باقی درخواستیں آئیں توپھر میری درخواست سماعت کے لیے مقرر کی، اس سے پہلے میری درخواست مقرر نہیں کی، آپ کے ذہن میں کوئی سوال تھا اس لیےآپ نے سماعت کے لیے مقررکیا، ورنہ آپ مختص سیٹ کا اعلان کر سکتے تھے۔

علی ظفر نے کہا کہ حقیقت یہ ہےکہ پی ٹی آئی کا نشان لیاگیا، سپریم کورٹ میں کہا تھا نشان نہیں دیں گےتو مخصوص نشست کا مسئلہ ہوگا، سپریم کورٹ کو ای سی پی کے وکیل نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا لیکن پی ٹی آئی حمایت یافتہ امیدوار مختلف نشانات پر الیکشن لڑے،علی  اسمبلی میں آزاد آمیدوارسیاسی جماعتوں سے زیادہ ہیں، ابھی غیر معمولی صورت حال ہے، پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدواوں کی اسمبلی میں اکثریت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آزاد امیدواروں کوکوٹے پرکیسے مخصوص نشست مل سکتی ہے، یہ سوال ہے، قومی اسمبلی میں آزاد نشستوں میں 86 نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، سندھ میں 9، پنجاب میں 107 اور کے پی میں 90 ایم پی ایز نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔

علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ آپ نے جس جماعت کو رجسٹرکیا اور نشان بھی دیا وہ سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمیشن کی فہرست میں پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے، نشان مل جائے تو الیکشن ایکٹ کے تحت وہ جماعت الیکشن لڑ سکتی ہے، ایس آئی سی سیاسی جماعت ہے جسے نشان ملا، آرٹیکل 17 کے مطابق ہرشہری ماسوائے سرکاری ملازم کو سیاسی جماعت بنانے اور اس میں شامل ہونےکا حق ہوگا۔

اس دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ سنی اتحادکونسل نےکوئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی، سیاسی جماعت کاغذات نامزدگی جمع کرانےکی تاریخ گزرجانےکے بعد ترجیحی لسٹ میں ترمیم بھی نہیں کرسکتی، قانون اتناسخت ہے کہ آپ کوئی نام تبدیل بھی نہیں کرسکتے، مخصوص نشست کی لسٹ صرف ختم ہونے پرنیا نام دیا جاسکتا ہے، سنی اتحادکونسل صرف مخصوص نشست حاصل کرنے کے لیے اس وقت فہرست نہیں دےسکتی۔

(ن) لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کا دلائل میں کہنا تھا کہ ترجیحی فہرست قانون کے مطابق دی جائے گی، ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ نہیں لیاکیا آزاد ارکان اس میں شامل ہوسکتے ہیں؟ مخصوص نشست کے دعوے کیلئے سیاسی جماعت کوچند سیٹیں جیتنا لازم ہے، الیکشن میں حصہ لیں،کچھ سیٹیں لائیں تو آزاد ارکان ملاکربڑھاسکتے ہیں لیکن سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔

ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی نظر میں سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت نہیں، روکی ہوئی مخصوص نشستیں ایم کیو ایم کو کوٹے کے مطابق دی جائیں ، سنی اتحاد کونسل نے جنرل الیکشن لڑا نہ ترجیحی فہرست جمع کرائی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے خود آذاد حیثیت میں الیکشن لڑا، الیکشن کمیشن آئین، قانون کے مطابق مخصوص نشستوں پر فیصلہ کرے۔

کامران مرتضیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ  ہم اس کیس میں نہیں تھے،آپ نے بلایا تو آئے ہیں، قانون میں ہے جس جماعت کا جتنا حصہ ہے وہ اسے ملتا ہے، بطور آزاد امیدوار انہیں مخصوص نشست نہیں مل سکتی تھی، سیاسی جماعت کی فہرست ایگزاسٹ ہونے پر اس میں نیانام شامل ہوسکتا ہے، تاریخ گزر جانےکے بعدجماعت نئی ترجیحی فہرست جمع نہیں کراسکتی،صرف موجودہ لسٹ میں نام شامل کرسکتی ہے، اب تقسیم ان میں ہوگی جنہوں نے لسٹ دی ہے ۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

مزید خبریں :