الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تقریباً 40 گھنٹے کی تاخیر کے بعد 800 سے زائد حلقوں کے حتمی نتائج 10 فروری کی شام تک مکمل کیے
13 مارچ ، 2024
8 فروری کو پولنگ بند ہونےکے 6 گھنٹے بعد بھی وسطی پنجاب کے ایک قومی اسمبلی کے حلقے کے انچارج ریٹرننگ افسر (آر او) کے دفتر میں بیلٹ بکسوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔
بکسوں کے اندر بیلٹ پیپرز اور اصل فارم تھے جس میں ہر حلقے کے ہر پولنگ اسٹیشن کی گنتی کی مکمل تفصیل موجود تھی۔
پھر بھی آدھی رات تک ڈیٹا انٹری آپریٹرز نے آر او کے دفتر میں موجود خاص طور پر ڈیزائن کردہ الیکشن مینجمنٹ سسٹم (ای ایم ایس) میں تعداد کو لاگ ان کرنے کی بہت کم کوشش کی۔
باہر، پریزائیڈنگ افسران (POs) بے مقصد گھومتے رہے انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کب ان کے پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج سسٹم میں ڈالے جائیں گے تاکہ ان کے طویل دن کا خاتمہ ہوسکے۔
دفتر کے باہر آویزاں اسکرین، جو میڈیا کو حقیقی وقت میں نتائج فراہم کرنے کے لیے تھی، بھی خالی تھی۔
ایک قابل اعتماد سورس کے مطابق جو کہ اس تمام پیش رفت کے عینی شاہد تھے نے بتایا کہ ”ایک اندازے کے مطابق 70 فیصد نتائج صبح 12 بجے تک آ چکے تھے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ڈیٹا (انٹری) آپریٹرز میں سے کوئی بھی نتائج کو سسٹم میں ٹائپ نہیں کر رہا تھا، پریزائیڈنگ آفیسرز سے کہا جا رہا تھا کہ وہ صرف انتظار کریں۔“
سورس کے مطابق 1 بجے کے قریب ”ایک اہم نظر آنے والا اہلکار“ ظاہر ہوا اور اس نے انتخابی مبصرین سمیت سب کو RO کے دفتر سے نکال دیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ”مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بعد اندر کیا ہوا“
ملک میں عام انتخابات سے چند ماہ قبل انتخابی نگران ادارے، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ایک نئی ”اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی“ تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جسے الیکشن منیجمنٹ سسٹم (ای ایم ایس) کہا جاتا ہے۔
اس میں وعدہ کیا گیا کہ یہ سسٹم 8 فروری کو انتخابی نتائج کی ”تیز، محفوظ اور تیز رفتار“ ٹیبلیشن اور تالیف کو یقینی بنائےگا۔
درحقیقت، انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی تھی، جس میں شیخی ماری گئی کہ ای سی پی نے 2018 کے انتخابات میں استعمال ہونے والے متنازع رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) کو اس بار الیکشن منیجمنٹ سسٹم کے لیے ترک کر دیا ہے۔
اس میں مزیدکہا گیا ہے کہ آرٹی ایس ، ای ایم ایس کا ایک ”ایڈوانس فارم“ ہے، کیونکہ یہ آف لائن ہونے کے باوجود بھی نتائج جمع کرنا جاری رکھ سکتا ہے، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کی ناکامی کی صورت میں بھی یہ قابل اعتبار ہونےکا وعدہ کرتا ہے۔
اس میں یقین دلایا گیا کہ ”ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ (انتخابات کے دن) نتائج الیکشن کمیشن تک نہ پہنچیں، ای سی پی کو ای ایم ایس پر مکمل اعتماد ہے۔“
لیکن جب انتخابات کا دن آتا ہے تو پولنگ کے نتائج سست رفتاری سے سامنے آتے ہیں، قانونی طور پر طے کی گئی آخری تاریخ کو بھی ڈھیروں نتائج آنے باقی ہوتے ہیں۔
ملک کے انتخابی قوانین کے مطابق، مکمل نتائج کا اعلان اگلے دن صبح 2 بجے یا زیادہ سے زیادہ صبح 10 بجے تک کیا جانا تھا، اس کے ساتھ انتخابی عملے سے تحریری وضاحت بھی مانگی جانی تھی کہ گنتی میں تاخیر کیوں ہوئی۔
اس کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تقریباً 40 گھنٹے کی تاخیر کے بعد 10 فروری کی شام تک 800 سے زائد قومی اور صوبائی حلقوں کے حتمی نتائج مکمل کیے۔
نا صرف گنتی میں تاخیر ہوئی بلکہ ای سی پی کی وضاحت آنے میں بھی تاخیر ہوئی۔
پارلیمانی انتخابات کے بعد 12 فروری کو الیکشن کمیشن کو دھاندلی اور غیر معمولی طور پر تاخیر سے آنے والے نتائج کے ملک گیر الزامات کا جواب دینے میں تین دن لگے۔
کمیشن نے 2 صفحات پر مشتمل ایک بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ”پریزائیڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران“ کے لیے الیکشن کے دن ڈیٹا کو الیکٹرانک طور پر بھیجنا ناممکن ہو گیا کیونکہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے سیلولر سگنلز بند تھے۔
مزید برآں اس میں الزام لگایا گیا کہ پولنگ اسٹیشنوں کے درمیان فاصلے، کچھ پولنگ اسٹیشن ”دور دراز علاقوں“ میں واقع ہیں،کچھ حلقوں میں برفباری اور دوسروں میں احتجاج نے وقت پر نتائج کی ترسیل کی صلاحیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ حکومت نے انتخابات کی صبح 8 فروری کو ملک بھر میں موبائل فون سروس اچانک معطل کر دی تھی اور 9 فروری کی شام کو بحال کر دی تھی۔
پھر بھی، مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بھی اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ کیوں وسطی پنجاب میں 2 حلقوں کے نتائج کو آدھی رات تک روک دیا گیا اور ای ایم ایس میں بھی اندراج نہیں کیا گیا، جیسا کہ عینی شاہدین نے تصدیق کی ہے۔
اس رپورٹ کے لکھے جانے کے وقت تک الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جیو ٹیلی ویژن کی جانب سے اس پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اس کے علاوہ، ایک سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جیو ٹی وی کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کراچی میں قائم انفارمیشن ٹیکنالوجی فرم، سیفائر کنسلٹنگ سروسز کے ذریعے تیار کردہ EMS کے لیے تقریباً 280 ملین روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے ہیں۔
جیو ٹی وی نے سفائر کنسلٹنگ کو لکھا اور ساتھ ہی ان کے کراچی نمبر پر تبصرے کے لیے کال کی، ای میل پر کوئی جواب نہیں آیا، جبکہ فون پر کمپنی نے urdu.geo.tv کی بار بار کالز کا جواب دینے سے بھی انکار کردیا۔
ابھی تک یہ بتانے کے لیے بہت کم ثبوت موجود ہیں کہ پولنگ کے دن بھی ای ایم ایس کا مکمل استعمال کیا بھی گیا تھا یا نہیں۔
ایک اور سورس، جو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک آر او کے دفتر میں موجود تھا، نے جیسے ہی نتائج آنا شروع ہوئے، شفافیت کی کمی اور سستی کی ایسی ہی کہانی سنائی۔
اہلکار کے مطابق پولنگ بند ہونے کے فوراً بعد گاڑیاں سرکاری نتائج لے جانے والے پریزائیڈنگ افسران کو چھوڑنے کے لیے قطار میں کھڑی تھیں، اس کے باوجود، یہ نتائج بمشکل آر او کے دفتر کے باہر لگائی گئی اسکرین تک پہنچ سکے، جو میڈیا اور الیکشن ایجنٹس کے لیے تھی۔
اسی سورس نے urdu.geo.tv کو یہ بھی بتایا کہ الیکشن مبصرین کو جو ای سی پی کی طرف سے جاری کردہ آفیشل کارڈ لے کر جا رہے تھے، کو ان کمروں کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی جہاں ای ایم ایس چل رہا تھا۔
سورس کے مطابق ”کمرہ اندر سے بند تھا، وہ (مبصرین) آدھی رات تک رسائی کے انتظار میں رہے، اور پھر چلے گئے۔(ای ایم ایس) کے نظام کی نگرانی یہاں تک کہ آزاد مبصرین کے لیےبھی ناقابل رسائی تھی۔“
انتخابات کے بعد شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں اسلام آباد میں قائم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے لکھا کہ ریٹرننگ افسران نے اپنے مبصرین کو 135 قومی اسمبلی کے حلقوں میں ٹیبلیشن کے عمل کی نگرانی کرنے کی اجازت نہیں دی جبکہ انہوں نے 260 حلقوں میں اپنی ٹیمیں بھیجیں۔
فافن نے مزید کہا کہ یہ انتخابی قانون کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ قانون تسلیم شدہ مبصرین کو نتائج کی کنسالیڈیشن کا مشاہدہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
جبکہ عام انتخابات 2024 کے بارے میں اپنی رپورٹ میں، لاہور میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے معیار کو 49 فیصد اسکور دیا، جو کہ پاکستان میں گزشتہ دو انتخابات کے مجموعی اسکور سے کم ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ کیوں ای ایم ایس ایک ایسا نظام جس پر پاکستان کے ٹیکس دہندگان کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا، الیکشن کے دن کیوں نظر انداز کیا گیا، urdu.geo.tv نے پنجاب میں 9 ریٹرننگ افسران سے رابطہ کیا۔
تمام9 آراوز نے سوالات سننے کے بعد یا تو کال کاٹ دی، یا ای ایم ایس کے بارے میں urdu.geo.tv سے بات کرنے سے انکار کر دیا، یہاں تک کہ ایک نے التجا کی کہ ”معاملہ بہت حساس ہے“ کہ اس پر بات کی جائے۔
اس کے بعد urdu.geo.tv نے صوبہ خیبرپختونخوا کے 6 آر اوز سے بھی رابطہ کیا اور وہاں سے بھی اسی طرح کوئی جواب نہیں ملا۔