فیکٹ چیک: ایکس کو بلاک کرنےکا مجاز ادارہ صرف پی ٹی اے ہے

سائبر کرائم قانون اور عدالتی فیصلے واضح ہیں کہ صرف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA ) کو آن لائن معلومات تک رسائی کو روکنے یا ہٹانے کا اختیار ہے

پاکستان میں X (ٹوئٹر) پر ایک ماہ سے زائد کی پابندی کے بارے میں پوچھے جانے پر، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین نے ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز حکومت کے احکامات پر بند ہوتے ہیں۔

دعویٰ غلط ہے، ایکس کو بلاک کرنےکا مجاز  ادارہ صرف پی ٹی اے ہے۔

دعویٰ

19 مارچ کو ڈان ڈاٹ کام کو  دیےگئے ایک انٹرویو  میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان سے 17 فروری سے ایکس پر پابندی کے بارے میں سوال کیا گیا۔

جس کے جواب میں میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے کہا کہ ”سوشل میڈیا فورمز کو بند کرنے کی ہدایت ہمیشہ وزارت داخلہ کرتی ہے۔“

حقیقت

قانون اور عدالتی فیصلے واضح کرتے ہیں کہ پی ٹی اے ہی کسی بھی آن لائن معلومات تک رسائی کو روکنے یا ہٹانے کا مجاز ہے۔

پاکستان کے سائبر کرائم قانون The Prevention of Electronic Crimes Act, 2016 کا سیکشن 37، واضح طور پر کہتا ہے کہ صرف PTA کے پاس ”اختیار ہے کہ وہ کسی بھی انفارمیشن سسٹم کے ذریعے کسی معلومات تک رسائی کو ہٹانے یا بلاک کرنے یا اسے ہٹانے یا روکنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے، یہ اسلام کی شان یا پاکستان کی سالمیت، سلامتی یا دفاع کے مفاد میں ضروری ہے۔“

PECA قانون کا سیکشن 37 کا عکس
 PECA قانون کا سیکشن 37 کا عکس

اسی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2018 کے فیصلے میں تقویت دی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے PECA قانون کے سیکشن 37 پر لکھا کہ ”یہ واضح ہے کہ پی ٹی اے کو کسی بھی انفارمیشن سسٹم کے ذریعے کسی بھی معلومات تک رسائی کو ہٹانے یا روکنے یا اس کے حوالے سے ہدایات جاری کرنے سے متعلق معاملات کا فیصلہ کرنے کا خصوصی اختیار دیا گیا ہے۔“

عدالت نے مزید لکھا کہ سیکشن 37 ”غیر مبہم طور پر“ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی اے وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت پر عمل کرنے کا ”پابند نہیں“ ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ”پی ٹی اے کو اپنے اختیارات کا استعمال وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایت یا معلومات کے زیر اثر آئے بغیر اور آزادانہ طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔“

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عوامی ورکرز پارٹی کی ویب سائٹ بلاک کرنے سے متعلق اپنے 2019 کے فیصلے میں لکھا کہ پی ٹی اے کی ویب سائٹس کو بغیر نوٹس یا کسی شخص کو سماعت کا موقع فراہم کیے بغیر بلاک کرنا ”بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی“ ہے۔

جیو فیکٹ چیک نے پی ٹی اے سے بھی رابطہ کیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان میں X پر پابندی کس کی ہدایت پر عائد کی گئی ہے۔

ادارے کی ترجمان نے کہا کہ ”ہمارے پاس اس معاملے پربات کرنے کے لیے کوئی موقف نہیں ہے۔“

اضافی رپورٹنگ: ثمن امجد

ہمیں@GeoFactCheckپر فالو کریں۔

اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔