24 مارچ ، 2024
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا اور مسلمانوں پر تشدد کے خلاف پاکستان کی قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسلاموفوبیا کے خلاف پاکستان کی جانب سے پیش کردہ قرار داد کے حق میں 115ووٹ ڈالے گئے جبکہ بھارت سمیت 44رکن ممالک ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسلاموفوبیا کے پھیلائو کو تسلیم کرنے کے باوجود دنیا بھر میں مسلمانوں کو اب بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے ۔اسلاموفوبیا ایک نرم اصطلا ح ہے جبکہ بات اب مسلم دشمنی تک پہنچ چکی ہے ،جس کی سرپرستی امریکہ،بھارت سمیت تمام مغربی ممالک کر رہے ہیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ امریکہ ، بھارت اور فرانس کے حکمران سرعام اور کھل کر اسلام دشمنی پر عمل پیرا ہیں اور دیگر ممالک خفیہ طور پر اسلام دشمن گروپوں کی سر پرستی کر رہے ہیں۔
بات اب صرف بھارت اور مغربی ممالک میں رہنے پر مجبور مسلمانوں سے نفرت تک محدود نہیں رہی بلکہ انتہا پسند اسلام دشمن ممالک نے دنیا کو واضح طور پر2بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے۔
امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی قیادت میں اسلام دشمن بلاک مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے،جس کی سب سے بڑی مثال فلسطین ،کشمیر اور بھارتی مسلمانوںکے قتل عام کی صورت موجود ہے ۔ المیہ مگر یہ ہے کہ عالم اسلام پر ایسی بزدل اور مفاد پرست قیادت مسلط ہے جو تمام تر قوت اور وسائل ہونے کے باوجود عالمی استعمار کی غلامی اختیار کئے ہوئےہے،جب تک عالم اسلام خودجرات کے ساتھ اپنے مفادات،عقائد اور جان و مال کے تحفظ کے لئے میدان میں نہیںاترے گا،ایسی تمام قرارداد یں،صورتحال میں کسی تبدیلی کا سبب نہیں بن سکیں گی۔
2022 کی قرارداد کے تحت 15 مارچ کا دن اس لئے منتخب کیا گیا تھا کیونکہ 2019 میں اسی روز نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد پر حملہ کر کے ایک دہشتگرد نے 51 مسلمانوں کو اس وقت شہید کردیا تھا جب وہ نمازِ جمعہ ادا کررہے تھے۔
دہشتگردی کے اس واقعے میں متعدد زخمی ہو گئے تھے جبکہ نیوزی لینڈ کے دورے پر موجود بنگلادیشی کرکٹ ٹیم اس حملے میں بال بال بچ گئی تھی۔ نیوزی لینڈ کی اس وقت کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد پوری دنیا میں اسلاموفوبیا کے خلاف ایک بحث کا آغاز ہوا اور پاکستان کی طرف سے 3 برس بعد جو قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی گئی وہ اسی بحث کا نقطہ عروج تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے نتیجے میں اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد کیلئے ایک دن کا بین الاقوامی سطح پر منایا جانا یقینا ًبہت اہم اقدام تھا۔
قرارداد کی منظوری کے موقع پر جنرل اسمبلی نے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، دشمنی اور تشدد پر اکسانے کی مذمت کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو قرآن پاک کی بے حرمتی کے بڑھتے واقعات کے علاوہ مساجد اور مزارات پر حملوں کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں منفی تصورات، نفرت اور تشدد کے واقعات میں اسلامو فوبیا ظاہر ہوتا ہے۔ دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری کے مطالبے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
اسلامو فوبیا کی لعنت سے نمٹنے کے لئے اپنی نوعیت کی یہ پہلی تقرری ہو گی۔ قرارداد پیش کرنے کے موقع پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لئے عالمی برادری کردار ادا کرے۔ اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کا سب سے بڑا ثبوت اسرائیل کا فلسطین پر حملہ ہے۔
2022ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی طرف سے پچھلی قرارداد بھی منیر اکرم نے ہی پیش کی تھی جسے کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا تھا کہ ہر سال 15 مارچ کو ’اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے بین الاقوامی دن‘ کے طور پر منایا جائے گا۔
نئی قرارداد کی منظوری کے لئے حکومت کی طرف سے کی گئی کوششوں کی تعریف تو بنتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ 15 مارچ کے دن کو پاکستان میں کس طرح منایا گیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس دن کسی خصوصی تقریب کا اہتمام نہیں کیا گیا جس سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ وہ اس دن کو کتنی اہمیت کا حامل سمجھتی ہے۔
اس سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ حکومت نے شاید اس دن کو اس لیے نہیں منایا کیونکہ 2022ء میں جب اقوامِ متحدہ نے اس دن کی منظوری دی تھی اس وقت ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔
ہماری سیاسی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر معاملے میں اپنے سیاسی اختلافات سامنے رکھنا مناسب طرزعمل نہیں ہے۔ اسلاموفوبیا کے خلاف منایا جانے والا دن ہو یا کشمیر اور فلسطین کے بارے میں پاکستان کا موقف، یہ معاملات ریاست کے طے شدہ اور واضح موقف کے عکاس ہیں، لہٰذا ان سے متعلق بات کرتے ہوئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب اس بار حکومت آئی ایم ایف مذاکرات نسبتاََ آسان قرار دئیے جا رہے تھے ایسا شاید اس لئے بھی تھاکہ اب آئی ایم ایف کے لئے پاکستان سے اپنے مطالبات منوانا کوئی مشکل نہیں رہا جو کہا جا رہا ہے اس پر من و عن سر تسلیم خم کیا جارہا ہے تو مشکل کیسی ؟قرض لے کر قوم کو گروی رکھنے والوں نے قومی حمیت کا جنازہ تو برسوں پہلے ہی نکال دیا تھا معیشت کی بہتری کی آڑ میں رہی سہی کسر اب پوری کی جا رہی ہے ۔
عوام پر ٹیکس در ٹیکس کی صورت اس قدر بوجھ ڈالا جا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں کسی بڑی عوامی تحریک کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کا نظم ونسق چلانے والوں کو مطالبات ماننے میں اعتدال کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور نہایت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھانا چاہئے۔