Time 27 مارچ ، 2024
بلاگ

پاکستان میں ایک چھوٹا سا دبئی

پاکستان میں متحدہ عرب امارات کے سفیر کی طرف سے دعوت ملی کہ ان کے ہاں بارہواں یواے ای ایمبسیڈر فٹ بال ٹورنامنٹ کا فائنل ہے اور مجھے دیگر مہمانوں کے ساتھ اس میں شریک ہونا ہے۔ رات نوبجے میں ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع یواے ای کے سفارتخانے پہنچا تو آنکھوں کو یقین نہیں آرہا تھا۔ 

یوں محسوس ہورہا تھا کہ میں دبئی آگیا ہوں۔ سفارتخانے کے احاطے کی جگہ مصنوعی گھاس لگا کر فٹ بال کا خوبصورت اسٹیڈیم تیار کیاگیا تھا ۔ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔ دونوں طرف شائقین کے دیکھنے کا حسن انتظام تھا۔ باہر مختلف پاکستانی مصنوعات اور فن پاروں کے اسٹال لگے تھے ۔روایتی پنجابی ڈھول کا بھی انتظام تھا جو کسی ٹیم کی طرف سے گول کرنے کی صورت میں حرکت میں آتا۔ اس ٹورنامنٹ میں مختلف اسلامی ممالک کے سفارتخانوں کی دس ٹیمیں حصہ لے رہی تھیں اور ہر ٹیم میں اس ملک کے کھلاڑیوں اور پاکستانی کھلاڑیوں کا حسین امتزاج تھا۔ 

میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان میں اسکواش، فٹ بال ، والی بال اور ہاکی کا کتنا بڑا ٹیلنٹ موجود ہے لیکن ان سب کو کرکٹ نے کھا لیا اور اب ہم کرکٹ کو کھارہے ہیں کیونکہ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا بزنس بن چکا ۔ یہ ہماری کتنی بڑی بدقسمتی اور یواے ای جیسے دوستوں کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ ہمارے ٹیلنٹ کو باہر نکال رہے ہیں اور ہمارے لوگوں کو تفریح کے مواقع دے رہے ہیں ۔

قطر کی ٹیم نے تیسری پوزیشن ، پی ٹی سی ایل کی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ چیمپیئن کا ٹائٹل ایرانی سفارتخانے کی ٹیم نے اپنے نام کردیا ۔میں نے محسوس کیا کہ اسپورٹس کیساتھ ساتھ یہ ایک سفارتی ایکٹیوٹی بھی ہے کیونکہ فائنل دیکھنے کیلئے اسلامی جمہوریہ ایران، یمن، کویت، اردن اور کئی دیگر اسلامی ممالک کے سفیر بھی تشریف لائے تھے ۔

متحدہ عرب امارات اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر مل کر کھلاڑیوں کو میڈل پہنا اور انعامات دے رہے تھے جبکہ سوائے آئی جی اسلام آباد کے ، جنہوں نے اس معاملے میں سہولت کاری کی تھی، کسی پاکستانی ذمہ دار کواتنی خوبصورت تقریب کا علم تک نہیں تھا۔ ایک خوبصورت پہلو یہ تھا کہ یوای اے کے دوستوں نے اپنی ثقافت نہیں بیچی بلکہ پاکستانی ثقافت کے مختلف رنگ دکھائے ۔ فائنل کے اختتام پر پنجابی گھوڑا رقص پیش کیا گیا جس سے شائقین خوب محظوظ ہوئے ۔ میں نے مجبور ہوکر وہ دلنشین تصویر ٹوئٹر پر بھی لگا دی جس میں پی ٹی سی ایل اور ایران کی ٹیموں کیساتھ متحدہ عرب امارات ، ایران ، کویت اور دیگر ملکوں کے سفیر کھڑے ان کے حوصلے بڑھارہے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ جو کام متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے نے اپنی محدود سی جگہ میں کیا وہ ہم پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں کیوں نہیں کرسکتے ؟ سادہ جواب یہ ہے کہ ہماری ریاست نوجوانوں کو تفریح کے مواقع فراہم کرنا اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتی۔اسی لئے نوجوان انتہاپسندی اورلغویات کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔ پاکستان میں صرف کرکٹ کھیلی جارہی ہے لیکن کرکٹ کا کھیل جیسا کہ میں نے عرض کیا اب کاروبار بن چکا ہے اور اس کا بورڈ اب ایک سیاسی ادارہ بن چکا ہے ۔

 اس کھیل میں ہماری پستی اب اپنی جگہ لیکن یہ پاکستان میں سب کھیلوں کو کھا گیا ۔ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے لیکن اب ہم ہاکی میں پوری دنیا سے پیچھے ہیں ۔ اسی طرح اسکواش میں ایک لمبے عرصے تک پاکستان نے دنیا پر حکمرانی کی ہے لیکن اب اسکواش کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں ۔ فٹ بال کرکٹ کے مقابلے میں عرب دنیا میں نہایت معروف کھیل ہے ۔ کرکٹ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ دلچسپ ہے اور پاکستان میں اس کا بھرپور ٹیلنٹ بھی موجود ہے لیکن اس طرف توجہ دینے والا کوئی نہیں ۔ ہمارے ہاں محمد وسیم جیسے باکسر ہیں لیکن یہ ریاست ان کے لئے اتنا بھی نہیں کرسکتی کہ انہیں انٹرنیشنل مقابلوں میں بھجوانے کا خرچہ دیدے جس کی وجہ سے وہ رینکنگ میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔

 اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ بلوچستان کی دھرتی سے ایک نوجوان اٹھا ہے اور وہ عالمی سطح پر دوڑ کے مقابلوں میں ملک کا نام روشن کرسکتا ہے لیکن کوشش کے باوجود محمد جنید اس کے لئے اسپانسر پیدا نہیں کرسکے ۔ اسی طرح کسی زمانے میں ہمارے بھولو اور جھارا پہلوان کے چرچے تھے لیکن اب ایسا کوئی نام سامنے نہیں آرہا ہے ۔ ایسا نہیں کہ گوجرانوالہ نے پہلوان پیدا کرنا بند کردیےہیں بلکہ یہ المیہ ہے کہ ریاست کی طرف سے ان کی سرپرستی کرنے والا کوئی نہیں ۔

 بلاشبہ کرکٹ میں بڑا پیسہ ہے اور زیادہ تر لوگ کرکٹ دیکھنے(کھیلنے کے نہیں) کے شوقین ہیں لیکن نوجوانوں میں سروے کئے جائیں تو کرکٹ کھیلنے والے کم ہوں گے۔ یہاں آپ کو دیگر کھیلوں کے کھلاڑی بھی لاکھوں کی تعداد میں مل جائیں گے اور یہ مجھے یواے ای کے مذکورہ ایونٹ سے اندازہ ہوا کہ محدود سے علاقے میں انہوں نے کتنی بڑی تعداد میں کتنے بڑے ٹیلنٹ کو جمع کیا تھا ۔

 اسلئے حکومت کو چاہئے کہ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل کرنے کیلئے صرف تقریروں پر انحصار کی بجائے دیگر کھیلوں کی طرف بھی توجہ دے اور اسکے شوقین جوانوں کی بھی اسی طرح سرپرستی اور رہنمائی کرے جس طرح کرکٹ کی ،کی جاتی ہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔