Time 31 مارچ ، 2024
بلاگ

کس سے منصفی چاہیں؟

کوئی اکسٹھ برس پہلے کا قصہ ہے نام نہاد حیدر آباد سازش کیس میں قیدی فیض احمد فیض نے ایک رزمیاتی نظم ’’نثار میں تیری گلیوں کے‘‘ میں گلہ کیا بھی تو:

بنے ہیں اہلِ ہوس، مدّعی بھی، منصف بھی

کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں

آج بھی منظر کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کو انتظامیہ اور اسکے تحت فوج کی خفیہ ایجنسی کی عدالتی معاملات اور ججوں کو بلیک میل کرنے کی ذاتی شہادتوں کے ساتھ ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ کے حوالے سے جو سنگین الزامات لگائے ہیں اس نے ملک بھر میں ایک کھلے راز کے فاش کئے جانے پر اک تہلکہ مچا دیا ہے۔ 

پاکستان میں دہائیوں سے جاری اور بڑے بڑے سیاسی موڑوں اور اہم ترین آئینی وقانونی مقدمات میں انتظامیہ کے دباؤ میں بے بس ججوں/ بنچوں کے ہاتھوں انصاف کے قتل عام کا نظارہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا سی گئی ہیں۔ ہر بار جب مردِ آہن نے آئین توڑا تو عدالتی توثیق کے بدلے عدلیہ کو ملا بھی تو پی سی او ججز کا شرمناک اعزاز۔ یہی وہ روگ عناصر تھے جنہوں نے ججوں کے ذریعہ بھٹو کو پھانسی دلوائی، بے نظیر بھٹو کو دوبار، نواز شریف کو تین بار اور عمران خان کو سرعت سے سزاؤں پہ سزائیں دلوائیں۔ اسلام آباد کے چھ بہادر ججوں نے جس ہمت اور بیباکی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے پورے نظام عدل کے خفیہ ہاتھوں میں یرغمال کیے جانے کی پرانی جانی پہچانی کہانی طشت از بام ہو گئی ہے۔

 لہٰذا اسے چھپانے کی کوششیں تو تیز تر ہونا ہی تھیں اور سیاسی محاذ آراؤں کو اپنے اپنے دکھوں کا رونا تو رونا ہی تھا۔ چھ ججوں کا مشترکہ خط ایک ایسا عامل تھا کہ ریاستی اداروں بشمول اعلیٰ ترین عدالت اور حکومت کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ چیف جسٹس محترم فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اوپر تلے فل کورٹ اجلاس منعقد کیے گئے اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو یہ کیس خود سننے یا اپنی نگرانی میں تحقیقات کرانے کی کوئی ترکیب نہ سوجھ پائی یا پھر ہمت ہی نہ ہوئی۔ لہٰذا، سپریم کورٹ اور انتظامیہ نے باہم رضا مندی سے تحقیقات کرانے کی ٹوپی ایک ایسی بے پیندے کی حکومت کے سر پہنا دی ہے جس کے خالق مقتدر ترین محکموں کے منہ زور اہلکاروں کے خلاف بے کس ججوں نے ایف آئی آر کٹوائی ہے۔

 ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر معاملے کو ٹھپ کرنے یا مٹی ڈالنے کیلئے تحقیقاتی کمیشن کا آزمودہ نسخہ شہباز حکومت اور اسکے قانونی ماہرین سامنے لائے ہیں۔ ایسے میں کسی گمشدہ شریف النفس سابق چیف جسٹس کی تلاش شروع کی جا چکی ہے۔ یقیناً سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا نام ذہن میں آتا ہے، لیکن وہ کیوں ایسی اوکھلی میں سر دیں گے جس سے کچھ برآمد ہونے والا نہیں۔ ریاست کا اخلاقی دیوالیہ اتنا پٹ چکا ہے کہ کسی کو حکومتی کمیشن پہ کوئی اعتبار نہیں۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ حمود الرحمان کمیشن، میمو گیٹ کمیشن، مسنگ پرسنز کمیشن اور صحافی سلیم شہزاد کے قتل پہ بنائے گئے کمیشن سے کوئی نتیجہ نکلا نہ کسی طرح کی اصلاح ِاحوال ہوئی۔ 

کیا مسنگ پرسنز اور سلیم شہزاد کمیشن کی رپورٹس میں خفیہ ایجنسیوں کے دائرہ کار، حدود قیود اور جوابدہی کیلئے دی گئی تجاویز پر کسی طرح کا کوئی عمل ہوا۔ حکومتوں میں ہمت تھی، نہ عدلیہ میں اتنا زور تھا اور نہ پارلیمنٹ اس اہل تھی کہ ریاست کے بے قابو گھوڑوں کو لگام دے پاتی۔ آئینی ریاست سے بالا ریاست کو آئینی دائرے میں لانے کی ایسی کسی کوشش کا انجام ہم قومی رہنماؤں اور وزرائے اعظم شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو شہید، بے نظیر بھٹو شہید، نواز شریف، صدر آصف علی زرداری اور اب عمران خان کے انجام کی صورت دیکھ چکے ہیں۔

پہلے تو تحقیقاتی کمیشن پر ہی بڑا تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ تحریک انصاف نے تو اسے سرے ہی سے رد کردیا ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ جو ناانصافیاں اسکے بانی اور کارکنوں کے ساتھ روا رکھی گئیں جسکی گواہی بقول پی ٹی آئی وکلا مبینہ طور پہ چھ ججوں نے دے دی ہے پہلے انکا سدباب کیا جائے۔ 

دوسری طرف نواز لیگ نے شریف خاندان اور لیگی کارکنوں کے خلاف ناانصافیوں کا کھاتہ کھولنے کا تقاضہ کر دیا ہے۔ ابھی دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی، بلوچ، پختون اور ہزارہ قوم پرست اور مہاجر لسانیات پسند کون کون سی بے انصافی کے کھاتے کھولتے ہیں۔ لیکن ان تمام شکایات میں واحد قدر مشترک ’’مقتدرہ اور اسکے لمبے ہاتھوں‘‘ کے بارے میں ہوشربا داستانیں ہیں۔ اس حکومت کے مقتدر سرپرست اور محترم وزیر قانون اب ججوں کی شکایت پر ٹرمز آف ریفرنس تیار کریں گے جس میں بڑا سوال یہ ہو گا کہ نظام عدل میں مقتدرہ اور اسکے خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کی فوجداری تحقیق کا سلسلہ کہاں سے شروع اور کہاں ختم کیا جائے، ویسے چیف جسٹس اور حکومت سے زیادہ پاک فوج کے سپہ سالار جناب جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی چیف کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ان الزامات کی تحقیقات کریں اور اداراتی کوڈ آف کنڈکٹ کو واشگاف طور پر از سر نو متعین کریں بلکہ آئینی دائرہ عمل کے اندر رہتے ہوئے اداراتی اصلاح احوال کریں۔ 

کچھ دوستوں نے پارلیمنٹ سے جانے کیوں یہ توقع ظاہر کی ہے کہ وہ بطور سپریم ادارہ بے مہار خفیہ والوں کے بے جا گھمبیر اور غیر آئینی طرز عمل کا سدباب کرے جو اسے آئیڈیلی کرنا بھی چاہیے۔ لیکن وہ بھول گئے کہ موجودہ پارلیمنٹ تو وجود میں آنے سے پہلے ہی اپنا اخلاقی جواز ووٹ گنتی چوری کے ہاتھوں کھو چکی ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ موجودہ متحارب پارٹیاں اپنی اپنی ابن الوقتی کے باعث ایک ہی سوراخ سے باری باری ڈسے جانے کے باوجود مشترکہ دفاعی مقصد کیلئے اکٹھی ہونے سے رہیں۔

جب کوئی ریاست آئین کی پاسدار نہ رہے تو پیپلز اور اسٹیٹ کے مابین سوشل کنٹریکٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ جب ادارے آئینی حدود میں نہ رہیں، جب شہری ماورائے قانون غائب اور قتل ہونے لگیں، میڈیا پر سخت بندشیں لگ جائیں اور شہریوں کی زبان بندی ہو جائے، عدالتیں انصاف کی قتل گاہیں بنادی جائیں، شہری و انسانی حقوق پامال کر دیئے جائیں، مقتدر اشرافیہ لوٹ مار کی تمام حدیں پھلانگ جائے، لوگ زندگی کی ہر آسائش سے محروم ہو جائیں، دہشت گرد ہر سو خون خرابہ کرتے پھریں، خطے میں سب سے جھگڑا اور ہمسائے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اندرونی خلفشار کو ہوا دیں، انتخابات کے نتائج بدل دیئے جائیں اور لوگوں کے حق رائے دہی کو بوٹوں کے نیچے کچل دیا جائے تو ججز بھی چلا اُٹھیں۔ تو ریاست ریاست نہیں رہتی روگ بن جاتی ہے۔ لیکن یہ سب چلنے والا نہیں!

جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں

علاج گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔