جھوٹے تبصرے کرکے ڈالرکمائے جاتے ہیں، کیا ہم جھوٹ پھیلانے والوں کو جیل بھیج دیں؟ چیف جسٹس

کہا گیا میری اہلیہ فل کورٹ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں،کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ/ فائل فوٹو
کہا گیا میری اہلیہ فل کورٹ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں،کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ/ فائل فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ جھوٹے تبصرے کرکے ڈالرکمائے جاتے ہیں، کیا ہم جھوٹ پھیلانے والوں کو جیل بھیج دیں؟

سپریم کورٹ  میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صحافیوں کو ایف آئی اے کے نوٹسز کے خلاف درخواست پر سماعت  کی جس دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنرعدالت میں ہے؟

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ایسی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ بالکل یہ پراسس کا غلط استعمال ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ایسی درخواستیں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں؟ اس پٹیشن کے تمام درخواست گزاروں کو نوٹس کرکے طلب کیوں نہ کریں؟ اس دوران اٹارنی جنرل نے بھی درخواست گزاروں کو نوٹس کرنے کی حمایت کی۔

عدالت میں بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ حیدر وحید میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتےہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حیدر وحید کورٹ اٹینڈ کرنے بھی نہیں آئے، ان کی پٹیشن آزادی اظہارکو یقینی بناتی یا مزید روکتی ہے؟ 2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پردائر تھی، کیا ان کامقصد پورا ہوگیا؟

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ میڈیا میں بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے، اب یہ رپورٹ نہیں ہوگا کہ یہ 6 درخواست گزار غائب ہوگئے، اسی لیے ہم نے کہا کہ ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبرچل گئی، کہا گیا میری اہلیہ فل کورٹ میٹنگ میں میرے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں،کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟ کہا جائے گا چیف جسٹس کی اہلیہ نے تو تردید جاری نہیں کی، ایسی خبر چلانے والوں کوکیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا فرد جرم عائد کرکے انہیں جیل بھیجیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جوجتنا زیادہ جھوٹ بولے گا اتنا ہی سوشل میڈیا پربکے گا، جھوٹے تبصرے کرکے ڈالرکمائے جاتے ہیں، کیا ہم جھوٹ پھیلانے والوں کو جیل بھیج دیں؟

بعد ازاں چیف جسٹس نے سماعت کے حکم نامے میں لکھوایا کہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق پٹیشن واپس لینے کی درخواست آئی، نہ پٹیشن کے درخواست گزارعدالت آئے نہ وکیل، نہ ہی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ۔

حکم نامے کے مطابق درخواست میں کہاگیا کہ اب وفاقی حکومت میڈیا ریگولیشن کا معاملہ خود دیکھ رہی ہے، اٹارنی جنرل نے حکومت سے منسوب اس بات کی تردید کی۔

سپریم کورٹ نے میڈیا ریگولیشن والی پٹیشن کے درخواست گزاروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا  اور عدالت  نے فریقین سے تحریری دلائل بھی طلب کرلیے۔

عدالت نے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔

مزید خبریں :